Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگردی کیخلاف پاکستانی علماء کا فتویٰ۔۔۔نیا کیا ہے؟

مشاری الزایدی۔۔الشرق الاوسط
 پاکستان کے 1800علماء نے متفقہ فتویٰ دیا ہے کہ خود کش حملے اور نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جدوجہد حرام ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا یہ فتویٰ شیطانی سرگرمیوں کا سدباب کردیگا؟
     دہشتگرد تنظیموں کے نظریہ سازانتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشتگردی کی سرگرمیوں کا جواز فقہی مباحثوں، قرآنی آیات اور  احادیث مبارکہ میں تلاش کرنے کا چکر چلائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ سلف صالحین کے ملفوظات کو بنیاد بناکر اپنی سرگرمیوں پر دین کا لبادہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
    علمائے دین سرکاری و نیم سرکاری دینی ا دارے اور دہشتگرد تنظیموں کے نظریہ ساز اس سلسلے میں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوئے ہیں۔ القاعدہ، طالبان، انصار بیت المقدس،داعش، لیبیا کی اسلامی جنگجو جماعت ،ان سے قبل مصر میں شکری مصطفی کی جماعت ، التکفیروالحجرہ،سعودی عرب میں جماعہ محتسبہ اورجھیمان کی جماعت ۔انہیںپابند شریعت علماء کالقب دیکر انکی نظریہ سازی سے استفادہ کرتی رہی ہے اور کررہی ہیں۔
    مصر میں الازہر کے دارالافتا اور سعودی عرب میں سربرآوردہ علماء بورڈ، القاعدہ، داعش اور دین کے نام پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ان جیسی دیگر جماعتو ںکے خلاف بہت سارے فتوے جاری کرچکے ہیں مگر ان فتوئوں کا مطلوبہ تسلی بخش مفید اثر نہیں ہوا۔
    کیا اسکامطلب یہ ہے کہ سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے افتاگھروںکو اس جہت میں اپنی کوششیں بند کردینی چاہئے یا اس حوالے سے فتوئوں کی رہنمائی سے رک جانا چاہئے؟
    اسکا جواب یقینا نفی میں ہی ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ رائے عامہ کو ہر حال میں دینی حکم سے مطلع کرنا اور مذہبی حقائق سے آگاہ کرنا شرعی فریضہ ہے۔ یہ دینی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنا واجب ہے۔ اسکے بعد انسانوں کے قاتلوںکے ساتھ فکری و ذہنی محاذ آرائی کا حق بھی ادا کرنا ہے۔
     چند روز قبل’’ پیغام پاکستان‘‘ کے نام سے حکومت نے قومی اعلامیہ اور 1800سے زائد علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ جاری کیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دہشتگردی، خودکش حملے اور نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جدوجہدحرام ہے۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے کہا کہ اس فتوے سے بھٹکے ہوئے افراد کی اصلاح ہوگی۔ فتوے میں دہشتگردی ، خونریزی اور خودکش حملے حرام قرار دیئے گئے ہیں۔ فتوے میں سرکاری فورسز سے تعاون عوام پرفرض گردانا گیا ہے۔صدر ممنون حسین نے کہا کہ یہ فتویٰ اعتدال پسند اسلامی معاشرے کے استحکام کی اساس ثابت ہوگا۔ پاکستانی مفتیانِ کرام نے کہا کہ کسی بھی شخص یا کسی بھی جماعت کو جہاد کے اعلان کا حق نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خودکش دھماکے اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں، حرام ہیں۔ پیغام ِ پاکستان کے نام سے اعلامیہ حکومت پاکستان کی ماتحت انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے تیار کیا ہے۔ اعلامیہ کا رسم اجراء صدر پاکستان نے انجام دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا حقانی گروپ، طالبان پاکستان ، طالبان افغانستان اور لشکر طیبہ وغیرہ سے منسلک خونریز عناصر اس فتوے کو سن کر خود کش حملے بند کردیں گے؟
     خود کش حملے ہوں یا ان جیسا دہشتگردی کاکوئی اور عمل ہو ،آیا یہ مسئلہ ہے یا ذہنیت اصل مسئلہ ہے جو خودکش حملے پر آمادہ کئے جانے والے نوجوانوں کی تربیت میں بروئے کار لائی جارہی ہے۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی ملک اور کسی بھی علاقے میں حقیقی مسئلے کودینی دعوت اور دینی روشنی نے ابھی تک چھوا ہی نہیں۔جو افکار اور جو تصورات خانقاہیں، مساجد ، مدارس اور گھریلو مجلسوں میں نوجوانوں کے ذہنوں کو برباد کررہے ہیںجب تک انکا احاطہ کرکے ان سے نمٹنے کا اہتمام نہیں ہوگا تب تک بات نہیں بنے گی۔ جہاد، حاکمیت اور خلافت جیسے موضوعات پر ہونے والے مباحثے اوران موضوعات کی بابت پائے جانے والے افکار و تصورات آفت کی جڑ ہیں۔
     پاکستان میںانتہا پسندی کی ناکہ بندی کیلئے کی جانے والی کوئی بھی کوشش شکریہ کی مستحق ہے۔ اس میں کسی کو کسی طرح کا کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے تاہم یہ بھی درست ہے کہ ہمیں مبالغہ آرائی سے بچنا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم ابھی تک احاطے کے اطراف ہی گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک مسئلے کی گتھی کو چھونے کی جسارت نہیں کرسکے ۔

شیئر: