Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ اور اسرائیل ... تعلقات مختلف

عبدالعزیز الحسین الصویغ ۔ المدینہ
فیس بک پر حال ہی میں بعض دوستوں سے اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت پر گفت و شنید ہوئی۔ اسکا باعث میرا ایک کالم بنا جس میں امریکہ اور اسرائیل کے اتحاد کی نوعیت اور تعلقات کے اثرات کی بابت چند باتیں تحریر کی گئی تھیں۔ میں نے اپنے مبینہ کالم میں بعض عرب ممالک اور امریکہ کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی تھی۔ علاوہ ازیں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات نیز امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی لامحدود مدد کا بھی تذکرہ کیا تھا۔ اسکا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ کے سیاسی ماہرین اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے منفرد تعلقات کو مندرجہ ذیل محرکات سے جوڑے ہوئے ہیں:۔
٭ امریکی اور اسرائیلی مغربی دنیا کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
٭ امریکہ یہودی ریاست کے تحفظ کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کو قومی و سلامتی چیلنج درپیش ہیں اور اسرائیل امریکہ کا حلیف ہے۔ 
٭ اسرائیل فرد کی آزادی ، لبرل جمہوری اصول، انسانی حقوق اور ریاست کے اندر قانون کی بالادستی کا پابند ہے۔ یہی امریکہ کی بھی پہچان ہے۔ 
٭ امریکہ اسرائیل کی مدد کو اخلاقی ، دینی اور تاریخی فریضہ سمجھتا ہے۔
٭ دوسری جانب امریکہ اپنے دیگر حلیفوں کی مدد مفاد کے اصول کے تحت کرتا ہے۔ مفاد کے سوا کوئی اور بنیاد نہیں۔ دیگر اتحادی امریکی تہذیب اور دینی و تاریخی اقدار میں امریکہ سے میل نہیں کھاتے۔قدر مشترک ہی امریکہ کو اسرائیل کی حمایت پر آمادہ کرتا ہے جبکہ اتحادی ممالک کو امریکہ کی مدد اور حمایت حاصل کرنے کیلئے نقد معاوضہ پیش کرنا پڑتا ہے۔
میرے دوست غرم اللہ الغامدی امریکہ و اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کے حوالے سے مذکورہ نکتہ نظر سے متفق ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کو جو نکات جوڑتے ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جو عرب و مسلم ممالک اور امریکہ یا عرب و مسلم ممالک اور مغربی دنیا کے درمیان اتفاق کا باعث ہیں۔
غرم اللہ نے جن نکات پر مجھ سے اتفاق کیا ہے اور میرے ایک اور دوست ایہاب السلیمانی نے اس حوالے سے مجھ سے جن نکات پر اختلاف کیا ہے ان کا تذکرہ آئندہ کالم میں کیا جائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر:

متعلقہ خبریں