دل چا ہتا ہے قدرتی ما حول کینوس پر منتقل کر کے گھر سجا دوں، نشمیہ ہارون
ایسے ما حول میں آ نکھ کھو لی جہاں ہر ہستی کو یونیفارم میں دیکھا،ہوا کے دوش پر ملاقات
تسنیم امجد ۔ریا ض
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انسان کے احساسات و خیالات ما حول کے زیرِ اثرپنپتے ہیں۔ دیس اور پردیس کے ما حول میں فرق ہوتا ہے ، اسی لئے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں۔دیس اور پردیس میں سب سے بڑا تفاوت تو یہ ہے کہ ان دونوں میں فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ کبھی ایک ساتھ نہیں ہو تے۔آج ٹیکنالوجی نے انتہائی ترقی کر لی ہے ۔دنیا کی تمام مسافتیںایک کلک کی دوری تک سمٹ آئی ہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ :
”فاصلے قرب کی بنیاد ہوا کرتے ہیں“
اس کا سبب یہ تھا کہ دور جانے والے کی باتیں اور یادیں سوچوں پر ابر بن کر چھا جاتی تھیں مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں حقائق موہوم ہو چکے ہیں اور اوہام حقیقت بن کر سامنے آچکے ہیں
پاس رہ کر بھی جو بے داد ہوا کرتے ہیں
شاد رہ کر بھی وہ ناشاد ہوا کرتے ہیں
یہ بھی حقیقت ہے کہ کالج ،” خواندہ حیات “کا وہ دور ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے نئے ارمان، تمنائیں، جذبات ،خواہشات اور خیالات سوچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، زندگی میں عجب قسم کی نیرنگی کا احساس ہوتا ہے،ایسے میں انسان جاگتی آنکھوں دیکھے جانے والے سہانے خوابوں کوتعبیر میں ڈھلتے دیکھنے کے لئے بےقرار رہتا ہے۔ عمر کے اس دور سے گزرنے والی ہر ہستی خود کو دنیا کی انتہائی خوش قسمت ، بے حد حَسین، ذہین ترین، ناکامیوں سے دور، خود اعتمادی سے معمور وجود سمجھتی ہے۔ ایسا تصور کرتے وقت وہ تنہا نہیں ہوتی بلکہ آئینہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ کالج کا وہ دور،زندگی کی وہ اٹھان آج بھی ہمیں ازبر ہے۔
ہمارے بچپن میں ہماری والدہ، خالائیں، پھوپھیاں سبھی موسم سرما کا استقبال کرنے کے لئے بازار سے اون لے کر آتیں، دھاتی یا پلاسٹک کی سلائیاں لاتیں اور سویٹر بننا شروع کر دیتیں۔ انہیں جب بھی فارغ وقت ملتا وہ سویٹر بننا شروع کر دیتیں۔ہر کسی کے سویٹر کا ڈیزائن یا نمونہ مختلف ہوتاچنانچہ وہ آپس میں ایک دوسرے کواَدھ بنا سویٹر دکھاتیں اور اس پر نمودار ہونے والانمونہ دیکھ کر اس کی تعریف کرتیں ۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگتا جیسے یہ سب خواتین ”مستقبل کے خواب بُن رہی ہیں۔“اسی طرح کالج میں جب کبھی ہماری ہمجولیاں مل بیٹھتیں اور مستقبل کی باتیں کرتیں تو ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے یہ سب بھی ”مستقبل کے خواب بُن رہی ہیں۔“ان لڑکیوں کی اکثریت یہی کہتی تھی کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ان کا شریک حیات فوجی افسر ہو۔ہماری وہ ہمجولیاں کہا کرتی تھیں کہ فوجی افسران میں جرا¿ت، شجاعت، بہادری، نظم و ضبط، وقار، مردانگی سبھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور یہی وہ اوصاف ہیں جن کے باعث وہ کسی بھی صنف نازک کے ”آئیڈیل“قرار پاتے ہیں۔ ایسے میں ذراتصور کیجئے کہ وہ ہستی کیسی ہوگی جن کے والد، دادا، نانا سب کے سب فوجی ہوں یعنی ننھیال اور ددھیال دونوں خاندانوں عساکرانِ وطن کا خون دوڑ رہا ہو۔ ایسی نجیب الطرفین عسکری خصوصیات کی حامل شخصیت کیسی ہوگی؟ اس کا جواب ہے کہ وہ ”نشمیہ “ جیسی ہوگی۔
اردونیوز نے ہوا کے دوش پراپنی مہمان محترمہ نشمیہ ہارون سے ملاقات کی۔ وہ نہ صرف زندگی کا فن جانتی ہیں بلکہ فن کی زندگی بھی ہیں۔ نشمیہ کہتی ہیں کہ زندگی رعنائیوں سے معمور نعمت ہے، میں اسے اپنی مصوری سے مزید حَسین بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہ دنیا رب العزت نے بے حد خوبصورت بنا ئی ہے ۔دل چا ہتا ہے کہ باہر کے قدرتی ما حول کو کینوس پر منتقل کر کے گھر کے درو دیوار سجا دوں ۔اپنے اس شوق کو کسی نہ کسی حد تک پو را کر تی ہو ں ۔اسی لئے پرو فیشن بھی یہی اپنایا ۔خو ش قسمتی سے میں پاکستان کے ایک عسکری خاندان کی نور عین ہوں۔ میں نے ایک ایسے ما حول میں آ نکھ کھو لی جس میں چہار سو نظم و ضبط ہی نظر آ یا ۔بابا ،دادا ،نانا،چچا اور نانا کے پا نچو ں بھائی فوج کے اعلیٰ عہدو ں پر رہے ۔باباندیم قمر بریگیڈیئر (ر)ہونے کی وجہ سے ابھی تک اسی طرح دبدبہ اور رعب رکھتے ہیں ۔
میں نے اپنے گرد ہر ہستی کو یونیفارم میں دیکھا ۔نانا مظہر یا سین بھی بریگیڈیئر تھے ۔ان کے پا نچو ں بھا ئی بھی ایسے ہی عہدو ں پر تھے ۔اس لئے ماما رو بینہ ندیم نے بھی عالم نظم و ضبط میں آ نکھ کھولی ۔اب آپ سو چئے جب والدین دو نو ں ہی ایک سے ہو ںتو بچوں کی تربیت کیسی ہو گی۔الحمد للہ گھر مثل جنت تھا اور ہے ۔میکے کی جانب سے آنے والی ٹھنڈی ہوا ئیں زند گی کو مزیدحَسین بنا دیتی ہیں جس کا لطف میں ا ٹھا رہی ہو ں ۔
میں ننھیال اور ددھیال میں پلو ٹھی کی اولاد ہو ں اس لئے محبتیں بٹورنے میں پہلے نمبر پر رہی ۔ بھائی احسن قمر آ جکل سڈنی میں ہیں جبکہ بہن ناجیہ قمر نے کنیئرڈ کالج سے ما سٹرز مکمل کیا ہے اور آ جکل لاہور گرامر میںپڑھا رہی ہیں ۔والدین کی خواہش رہی کہ ان کی اولاد خوب سے خوب ترکی جانب گامزن رہے ۔اس کے لئے وہ بہت سو شل لائف ہونے کے باوجود مصروف رہے ۔وہ ہماری اسکولنگ سے لے کر یو نیور سٹی تک رہنمائی کرتے رہے ۔بابا نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یہ کام یا کھیل نہ کھیلو جو لڑ کے کھیلتے ہیں ۔آرمی میں ہو نے کی وجہ سے بابا کی پو سٹنگ ملک بھر میں شہر شہر ہوئی اور ہمیں ایسا لگا کہ خوب سیر ہو رہی ہے ۔دادا نے میری پیدائش پر بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا کیو نکہ ان کے پانچ بیٹے ہی تھے اورانہیں بیٹی کی شدت سے خواہش تھی ۔میں نے ہا ئی اسکول تک امریکہ سے تعلیم حاصل کی ۔ وہاں مجھے ” جارج بش ایکیڈیمک ایکسیلنس ایوارڈ“ملا ۔پھر بابا کی پو سٹنگ منگلا میں تھی ۔وہاں میری پسند کے مضامین نہیں تھے اس لئے ایف ایس سی پری انجینیئرنگ میں کیا ۔مجھے میتھس اور آرٹ سے رغبت تھی ۔بیچلرز بھی وہیں سے کیا۔ کالج میں اسپو ر ٹس اور دوسری نصابی سرگرمیوں میںآگے آگے رہی ۔
یہ سب بتاتے ہوئے نشمیہ ما ضی کی خوبصورت یا دو ں میں کھو گئیں۔کہنے لگیں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے میں ان دنو ں میں لوٹ گئی ہو ں ۔اس ما حول کا مجھ پر اس قدر ا ثر ہے کہ آج میں بھی اپنے بچو ں کی تر بیت و پر ورش فو جی انداز میں ہی کر رہی ہو ں ۔
بیچلرز کے بعد والدین کو میری رخصتی کی فکر شروع ہو گئی جبکہ میں ما سٹرز کے مو ڈ میں تھی ۔ان کی خواہش پوری ہو ئی کہ ان کا من پسند رشتہ آگیا۔ وہ بھی ایسے کہ ہم پا سنگ آ ﺅ ٹ پریڈ دیکھنے گئے تھے۔ وہیں پر ساس صاحبہ نے پسند کر لیا اور میری ر خصتی ہو گئی ۔ہارون یو سف خان میری زندگی میں بہار بن کر آ ئے۔سسرال بہت محبت کرنے والا ہے ۔سسر محمد یو سف خان اور ساس نا ہید یو سف خان بھی بے حد محبت کرنے والے اور بہت ہی اپنے سے ہیں۔
میری نند کنول چیمہ بھی بہنو ں سے بڑ ھ کر ہیں۔اللہ کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔مجھے ہمیشہ سے بھرے پرے گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے کیو نکہ ہم نے بچپن سے یہی دیکھا کہ چھٹیو ں میں سبھی خاندان والے اکٹھے ہو جاتے اور خوب مزے کرتے ۔ساس، سسر ،بیٹی کی طرح چا ہتے ہیں۔بہت ہی شفیق و مخلص ہیں ۔سسر خود بھی واپڈا میں جی ایم کی پوسٹ پر تھے ۔
ہماری گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ نشمیہ کے شو ہر نے فون پر کہا کہ وہ بھی بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ اس لئے گفتگو میں ہمارا حصہ بھی رکھئے۔اتنی دیر میں نشمیہ کی صا حبزادی فا طمہ یو سف خان گرما گرم چائے بنا لائیں ۔ ہم نے بھی اِدھر کافی بنا لی ۔شہرِ ریاض میں سردی بھی خوب ہے اس لئے دونو ں ان گرم مشروبات سے محظوظ ہونے لگے ۔نشمیہ فکریہ انداز میں کہنے لگیں کہ اللہ کریم کا شکر ہے کہ میں نے اپنی بچیوں کو کچھ نہ کچھ گھر گر ہستی سکھا دی ہے ۔بڑی بیٹی انو شہ یو سف خان نے گریجویشن امریکن اسکول سے کی اور اب ” لمس“ میں پڑھ رہی ہیں جبکہ فا طمہ یو سف خان ابھی گیا رھویں گریڈ میں ہیں ۔وہ بھی امریکن اسکول و کالج میں ہے۔ ہماری گفتگو کے دوران ہی ان کے شو ہر تشریف لے آ ئے ۔ان سے بات کرکے یہی احساس ہوا کہ وہ بھی بیگم کی طرح ہمہ صفت شخصیت کے ما لک ہیں ۔کہنے لگے سب سے پہلے تو میرا شکریہ اردو نیوز کو پہنچا دیجئے ۔آج ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کو ئی سلیبریٹی ہیں ۔اس پر ہم نے کہا کہ اردو نیوز کے لئے سبھی مہمان سلیبریٹی ہوتے ہیں ۔آپ کے تجربات نجانے کتنو ں کی رہنمائی کرتے ہو ں گے ۔
ہارون یوسف خان صاحب کہنے لگے کہ میں چار ٹرڈاکا ﺅ نٹنٹ ہو ں۔بیگم کا مزاج آ رٹ کو پسند کرتا ہے اور ہم نے ان کی پسند کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں گھر میں آ رٹ روم بنا دیا ہے جہاں وہ اپنے شوق کی تکمیل کرتی ہیں۔اس پرنشمیہ بو لیںکہ آپ کو مطالعے کا شوق ہے تو میں نے آپ کے لئے لا ئبریری کا اہتمام کیا ہے ۔ہارون یوسف نے کہا کہ میرے والدین نے یہی تربیت کی اور ان کی زندگی سے بھی ہم نے یہی سیکھا کہ ازدواجی رشتہ احساس کا ناتہ ہے جسے پنپنے کے لئے محبت کی پھوار ہر لمحہ چا ہئے ۔ویسے بھی انسان خالقِ کا ئنات کی بہترین تخلیق ہے ۔زندگی کو مکمل اور مسلسل سفر جان کر ہر لمحہ مصروف رہنا ہی کا میابی ہے ۔خواتین معاشرے کی تشکیل و بناوٹ میں نہایت اہم ہیں۔ مغرب کا معاشرہ بھی اب خاندانی نظام کی اہمیت کو پہچاننے لگا ہے ۔ہمارے مشترکہ نظام کو وہ رشک سے دیکھتے ہیں ۔یہ معاشرہ رشتوں سے گندھا ہوا ہے ۔ہر رشتہ خا ص وصف ،پہچان اور برتاﺅ کا حا مل ہے ۔یہ و صف و پہچان کچھ تو قدرتی ودیعت کی گئی ہے اور کچھ رشتوں کی نزاکت انہیں بنا دیتی ہے ۔
محترم ہارون یوسف خان نے کہا کہ بیگم نے جلد ہی سسرال میں سب کے دل جیت لئے ۔میرے والدین ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ میری والدہ کہتی ہیں کہ یہ رشتے دھا گو ں میں مو تیو ں کی طرح پروئے ہو ئے ہیںاور محبتو ں کو نچھا ور کر کے انہیں مضبوط کرنے کا عمل جاری رکھنا پڑتا ہے ۔کامیاب رشتو ں کے لئے ضروری ہے کہ زندگی کے مصنو عی پن کو ختم کر کے حقائق پر نظر رکھی جائے ۔
نشمیہ نے کہا کہ اگر بچپن سے ہی ما ئیں بیٹیو ں کو با تو ں ہی با توں میں چھو ٹی چھوٹی نصیحتیں کرتی رہیں تو یہ ذہن میں گھر کر جا تی ہیں۔یہ میرا اپنا تجربہ ہے ۔ہماری ماما محبت کے ساتھ ساتھ سختی بھی کرتی تھیں ۔اب مجھے اکثر ان کی نصیحتیں یاد آ تی ہیں تو بہت خو شی ہو تی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہارون یوسف خان صاحب ایک روایتی شوہر ہیں۔انہیں دیسی کھا نو ں کا شوق ہے اس لئے میں ان کے اس شوق کا احترام کرتی ہو ں ۔ہمیں ادب سے لگاﺅ بھی ہے ۔اس سلسلے میںکوئی بھی مشاعرہ یا ادبی محفل ہاتھ سے جا نے نہیں دیتے ۔شاعری کرتی نہیں لیکن سنتی اور پڑ ھتی ضرور ہو ں ،کچھ حا ضر ہے :
آ رائشِ جمال کو مشاطہ چا ہئے
بے با غباں کے رہ نہیں سکتا چمن درست
عشاق و بوا لہو س کو وہ پہچان جا ئیں گے
چھپتی نہیں ہے صورت بیمار و تندرست
کم شا عری بھی نسخہ اکسیر سے نہیں
مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست
غربت زدوں کے حال کا افسانہ چھیڑتے
ہوتی ا گر طبیعتِ اہل وطن درست
ہارون یو سف خان بو لے ہمیں بھی اگر چہ شاعری سے لگاﺅ ہے لیکن مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری بھاتی ہے ۔ان کا شعر دیکھئے:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیو ں
رو ئیں گے ہم ہزار بار، کو ئی ہمیں ستائے کیو ں
نشمیہ بولیں کہ میڈیا کی وساطت سے میں یہ پیغام دینا چاہو ں گی کہ ازدواجی زندگی ایک مثالی معا شرے کی تشکیل کی جانب اہم قدم ہے اس کو مثل جنت بنا کر ایک عورت افراد خانہ کو مستقبل کی کا میابی سو نپتی ہے ۔گھر کی کو شحالی کی ذمہ داری عورت اور مرد دو نوں کے کاندھوں پر ہے ۔ان دونوں کو مل کر بچو ں کی تربیت و پر ورش کرنی چا ہئے ۔ان کی نفسیات کے مطابق انہیں مستقبل کی باگ ڈور تھمانی چاہئے۔ آج کے حالات کے ذمہ دار والدین بھی ہیں ۔ آج کے بچے خاصے تیز ہو چکے ہیں۔ماضی سے ان کا مقابلہ نہیں کرنا چا ہئے ۔ہم نے اکثر کہتے سنا ہے کہ ہمارے زمانے میں یہ تھا ،وہ تھا و غیرہ وغیرہ ،یہ غلط ہے ۔کیا ہمارے زمانے میں ٹیکنا لوجی کی ایسی بمبار ی ہوتی تھی؟ آج بچوں کو تحفظ کی ضرورت زیادہ ہے ۔والدین کی ذمہ داریا ں بھی بڑھ گئی ہیں ۔آئے دن جرائم کی خبروں سے دل دہل رہے ہیں۔حسد اور منفی رحجان احساس کمتری کو جنم دے رہے ہیںکہیں احساس بر تری بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انسان وحشی بن کر دوسروں کی خوشیاں چھین رہا ہے ۔ہمیں ان حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔اللہ کریم کی ذات عالی پر بھروسہ کرنے سے تمام منفی بادل چھٹ جائیں گے ۔اسلام کا ہر رکن نظم و ضبط کا مظہر ہے ۔اس پر عمل کرنے والے کی زندگی دوسروں کے لئے مثال بن جاتی ہے۔