Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئندہ چیئرمین سینیٹ کون ہو گا ؟

کراچی (صلاح الدین حیدر  ) الیکشن کمیشن نے سینیٹ یا ایوان بالا کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر کے سیاسی پارٹیوں کی توجہ بھر پور طریقے سے ایک نکتہ پر مرکو ز کردی ہے ۔ امید تو یہی ہے کہ ملک کی دو بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں گھمسان کا رن پڑیگا لیکن اصل سوال جو دونوں کے لئے اہم ہے کہ سینیٹ کا چیئرمین کون بنے گا ۔ پاکستانی آئین کے تحت سینیٹ کی میعاد 6سال ہوتی ہے ہر3 سال بعد آدھے ممبران ریٹائر ہو جاتے ہیں یعنی 104میں سے اس سال مارچ میں 52سینیٹر ریٹائر ہو جائیں گے ۔ ان میں 4ایم کیو ایم کے ممبران شامل ہیں ۔ خود سینیٹر کے چیئرمین رضا ربانی بھی 12مارچ کو اپنے عہدے کی میعادپوری کرنے کے بعد سبکدوش ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ عام توقع یہی ہے کہ پیپلز پارٹی آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو اس کےلئے نامزد کرے گی ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دوبارہ سینیٹ میں ممبر کی حیثیت سے منتخب ہو جائیں لیکن عہدے پر بحال ہونا شاید ہی ممکن ہو ۔ اس وقت ن لیگ کو 27ممبران کی وجہ سے پیپلز پارٹی پر سبقت حاصل ہے لیکن جوڑ توڑ کا کھیل بھی تو اہمیت رکھتا ہے ۔ زرداری نے یہ کھیل میں دوسروں پر سبقت حاصل کی ہے ۔ وجہ صاف ہے ۔جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں افراتفری کاعالم ہے ۔ وہاںچیف منسٹر ثناءاللہ زہری کےخلاف بغاوت کے بعد قدوس بزنجو جو کہ اےک مشہور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں نے عہدہ سنبھال لیا ہے لیکن بات جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ ن لیگ میں بغاوت ہو چکی ہے ۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مسئلہ حل کرانے دو روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے لیکن باقی ارکان نے اپنے ہی پارٹی کے وزیراعظم سے ملنے سے انکار کردیا ۔ بالآخر ق لیگ کے نمائندے کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ دیا گیا ۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے آصف زرداری نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور ممبران صوبائی اسمبلی سے ملاقات کر کے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ایسی ہی کوشش میں خیبرپختونخوا میں بھی کر رہے ہیں جہاں عمران خان کے خلاف بغاوت کے آثار نمایاں ہیں ۔ کل بڑے پر اعتماد لہجہ میں زرداری داری نے کہا کہ ہم پنجاب میں حکومت بنائیں گے اورسرائیکی صوبہ کا بھی قیام عمل میں لایا جائےگا ۔ بات ساری تعداد پر منحصر ہے ۔ پاکستانی آئین کے مطابق ممبران صوبائی اسمبلی سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں ا گر زرداری بلوچستان اور کے پی کے سے کچھ ممبران کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ظاہر ہے وہ روایتی حریف ن لیگ کو نیچا دکھا سکتے ہیں ۔ ادھر نوازشریف نے بھی دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے ۔ سندھ میں زرداری کو کمزور کرنے کےلئے سابق وزیراعظم نے پیر پگارا سے رابطہ کیا لیکن کامیابی نہ ہو سکی ۔ ایم کیو ایم کے ممبران کی تعداد سندھ صوبائی اسمبلی میں بھی اہم ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ نوازشریف ایم کیو ایم سے رابطہ کرتے ہیں اور خود ایم کیو ایم کا ردعمل کیا ہو گا یہ اہم ہے ۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

شیئر: