سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سرد مہری
عبداللہ الجنید ۔ مکہ
جب سے صدر ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے تب سے امریکہ اورسعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری آگئی ہے۔ امریکہ خود کو خلیجی بحران کے فریق کے طور پر تھوپنے کیلئے کوشاں ہے تاہم سعودی عرب اس بات کو ترجیح دے رہا ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا وہ کافی ہے۔ قطر کی پالیسیوں کو قابو کرنے کیلئے اب تک جو مشترکہ جدوجہد کی گئی ہے اسی پر اکتفا کیا جائے اور دیگر مسائل سے امریکہ کو دور رکھا جائے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں آنے والی اس تبدیلی نے امریکی صدر اور انکے وزیر خارجہ میں قربت پیدا کردی۔ایک طرح سے القدس بحران نے امریکہ کو سعودی عرب سے دور اور قطر سے قریب کردیا۔ امریکی صدر نے سعودی عرب کی ہم آہنگی کا مطلب یہ لے لیا کہ وائٹ ہاﺅس جو پالیسی بھی جاری کریگا وہ سعودی عرب کو قبول ہوگی، یہ درست نہیں۔ القدس پر صدر ٹرمپ کے فیصلے نے صورتحال تبدیل کردی ہے۔
سعودی عرب نے امریکی اسلامی سربراہ کانفرنس سے قبل بڑی جدوجہد کی ۔ فلسطین اسرائیل امن مذاکرات کی بحالی کی راہ میں بڑی سے بڑی رکاوٹ کو ہٹانے کا اہتمام کیا۔حماس کو اپنے قومی منشور میں ترمیم پر راضی کیا۔ 1967 ءکی سرحدیں تسلیم کرنے پر آمادہ کیا۔ مصر اور امارات کے زیر نگرانی تنظیم آزادی فلسطین کیساتھ قومی مصالحت قبول کرنے پر تیار کیا۔ امریکی انتظامیہ کو جو کام انجام دینے میں برسہا برس لگ جاتے سعودی عرب نے اسلامی دنیا کیساتھ مصالحت کا ماحول برپا کرکے یہ کام چند گھنٹوں میں انجام دیدیا۔
خلیجی بحران امریکی صدر ٹرمپ اور انکے وزیر خارجہ کے درمیان اختلاف کا حقیقی نکتہ بن گیا۔اسکی بنیاد اس وقت پڑی جب امریکی وزیر خارجہ نے قطر کیساتھ دہشتگردی کی فنڈنگ کے انسداد سمجھوتے کو 2013ءاور 2014ءکے دوران ریاض معاہدوں کا متبادل فرض کرلیا۔ سعودی عرب امریکہ کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔ مملکت کو اس وجہ سے بھی شکایت تھی کہ امریکہ مذکورہ معاہدوں پر عمل درآمد کرانے کے سلسلے میں بین الاقوامی ضامن تھا، کویت بھی اسکا حصہ ہے لیکن امریکہ کے مذکورہ مفروضے نے صورتحال تبدیل کردی۔ سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ قطر جی سی سی ممالک کیساتھ کئے گئے معاہدوںپرعملدرآمد کا پابند ہے ۔ معاہدہ خودمختار ممالک کے درمیان طے پایا تھا۔
مذکورہ مسائل سعودی نکتہ نظرسے امریکہ کی سابقہ روش کی یاد تازہ کررہے ہیں۔ امریکہ نے سیاسی نتائج کی پروا کئے بغیر عراق پر لشکر کشی کا یکطرفہ فیصلہ کیا تھا۔ اس نے اپنے اتحادیوں کے اعتبار کی بھی پروا نہیں کی تھی۔ ٹرمپ کو امید تھی کہ وہ سعودی عرب کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ مشرق وسطی امن عمل کی بحالی سے قبل القدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت تسلیم کرنے کی جو نتنیاہو نے جو شرط رکھی ہے وہ سعودی عرب سے منوالی جائیگی۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی فیصلے پر ووٹنگ سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے سخت ردعمل کا اعلان کردیا تھا۔ انتظامیہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم سے کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کی مدد لینے والے ہمارے خلاف ووٹ دیںیہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا تھا کہ جنرل اسمبلی میں امریکہ کے خلاف ووٹنگ امریکہ کی توہین ہے۔ امریکی صدر نے مجھے حکم دیا ہے کہ القدس سے متعلق امریکی فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک کی فہرست انہیں پیش کروں۔امریکہ نے نائب صدر کو مشرق وسطیٰ کے دورے پر بھیج کر القدس فیصلے کے منفی اثرات کو قابوکرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیابی نہیں ملی۔
ریاض میں امریکی اسلامی اورامریکی سعودی سربراہ کانفرنس کا بنیادی ہدف امن و استحکام تھامگر القدس پر امریکی صدر کے فیصلے نے اس عمل کو معطل کردیا۔
بہتر ہوگا کہ متنازعہ امور کسی اور وقت کیلئے ملتوی کردیئے جائیں۔ اس سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ امریکی صدر وائٹ ہاﺅس کے سینیئر عہدیدار کا مشورہ قبول کرتے ہوئے بیان بازی بند کردیں۔ صدر ٹرمپ اپنے دوستوںاور دشمنوں دونوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں۔ اس سے خطرناک صورتحال جنم لیتی رہتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امن کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہ سہی یکجہتی اشد ضروری ہے۔ دونوںملکوں کے درمیان براعظم افریقہ میں ملتی جلتی حکمت عملی کا بھی تقاضا ہے کہ دیگر اتحادیوں کیساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیاجائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭