Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں تارکین وطن کا مستقبل

  سطام المقرن ۔ الوطن
بی بی سی لندن اور ڈی ڈبلیو جرمن جیسے کئی سیٹلائٹ چینلز نے لیبر مارکیٹ سے متعلق حالیہ فیصلوں کو سعودی عرب میں تارکین وطن کے مستقبل کے حوالے سے پُرخطر قرار دیا ہے۔سیٹلائٹ چینلز نے اس حوالے سے متعد د رپورٹیں اپنے ناظرین کو پیش کی ہیں۔ رپورٹوں میں تاثر دیا گیا ہے کہ متعدد تجارتی سرگرمیوں کی سعودائزیشن اور مختلف عنوانوں سے تارکین وطن پر عائد کی جانے والی فیسوں سے لیبر مارکیٹ کی ضرورتوں پر منفی اثرات پڑیں گے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ بہت سارے باصلاحیت اور تجربہ کار غیر ملکی سعودی عرب کو خیر باد کہہ دیں گے اور سعودی معیشت ایسے تجربہ کاروں کی خدمات سے محروم ہوجائیگی جن سے بے نیازی برتنا اسکے لئے مشکل ہے۔ 
مذکورہ رپورٹوں میں سعودی لیبر مارکیٹ کے زمینی حقائق کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ تارکین وطن کی مسلسل روز افزوں درآمد کے منفی اثرات سے چشم پوشی برتی گئی ہے۔ اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ حد سے زیادہ تارکین وطن کی درآمد سے سعودی لیبر مارکیٹ کا ڈھانچہ خراب ہوگیا ہے۔سعودی کارکنان کے حلقوں میں بے روزگاری کا مسئلہ شدت سے ابھر رہا ہے۔ تعلیمی اور تربیتی پروگرام وسیع پیمانے پر چل رہے ہیں پھر بھی بے روزگاری سر ابھارے ہوئے ہے۔ اس صورتحال نے مملکت میں بے روزگاری کے خاتمے، مقامی شہریوں کو روزگار دلانے اور سعودائزیشن کے حوالے سے نئے تصور کی اہمیت اجاگر کی ہے۔
مجھے مذکورہ سیٹلائٹ چینلز کے اس رویئے پر حیرت ہے کہ انہوں نے برطانیہ اور جرمنی میں تارکین وطن کی درآمد کے حوالے سے پیچیدہ اور سخت شرائط کو یکسر نظر انداز کردیا۔ معلوم ہونا چاہئے کہ سعودی لیبر مارکیٹ دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں خارجی کارکنان کی درآمد کے سلسلے میں زیادہ آزاد ہے۔ اکثر ممالک غیر ملکیوں کی درآمد کے حوالے سے بڑے سخت قوانین بنائے ہوئے ہیں۔
گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے کے دوران تیل کی بہتا ت او رآسمان سے باتیں کرتے نرخوں نے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بڑے پیمانے پر قائم کرنے کی طرح ڈالی تھی۔ پیداواری عناصر کی طلب میں اضافہ ہوا تھا۔ مختصر مدتی عملے کی طلب میں پیدا ہونے والی خلیج پُر کرنے کیلئے دنیا بھر سے تارکین وطن کثیر تعداد میں درآمد کئے گئے تھے۔ دوسری جانب حکومت نے سرکاری اداروں میں ملازمتو ںکا دائرہ بیحد وسیع کردیا تھا۔ اچھی تنخواہیں پیش کی گئیں اور سرکاری ملازمین کو ریٹائر ہونے تک ملازمت کے حوالے سے مکمل تحفظ بھی دیا گیا۔ ریٹائرمنٹ کی عمر بھی کم رکھی گئی۔ نجی اداروں نے نسبتاً کم تنخواہ والے غیر ملکی کارکنان پر انحصار بڑھایا۔ لاگت بھی کم تھی ۔ ان سارے اسباب کے باعث سعودی شہریو ںمیں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ اسی دوران ویزوں کا کاروبار بھی شروع ہوگیا۔ اس نے سعودی لیبر مارکیٹ کی پہچان حد سے زیادہ خراب کردی۔ بعض کمپنیوں اور ادارو ںنے غیر ملکی کارکن درآمد کرنے کیلئے سرکاری اداروں کے خطوط کو بنیاد بناکر قوانین و ضوابط سے کھلواڑ بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نجی کمپنیوں و ادارو ںکے کارکنان کی تعداد انکی ضرورت سے کہیں زیادہ ہوگئی۔ کمپنیاں ایک طرف تو اپنی ضرورت کیلئے غیر ملکی کارکن لاتی رہیں اور دوسری جانب ضرور ت کے نام پر کارکن لاکر ویزے بھی فروخت کرتی رہیں۔
اسی دوران سعودیوں کے نام سے غیر ملکیو ںکے کاروبار کا رواج بھی عام ہوا۔ اس حوالے سے عمرو فلمبان اپنے کالم ”سعودی مدیر“ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ سرکاری ملازم نے معمولی رقم پس انداز کی، غیر ملکی کو صالون یا بقالہ کھلوایا اور اس سے ماہانہ رقم پر معاملہ طے کرکے اپنی آمدنی کا نیا وسیلہ تخلیق کرلیا۔ اس قسم کے منصوبے باقاعدہ اور غیر قانونی طورپر مقیم تارکین وطن کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر پھیل گئے۔ سعودیوں کو اس سے اضافی آمدنی کا وسیلہ ہاتھ آگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر تارکین چھا گئے۔4 عشروں سے یہ مسئلہ بھیانک شکل اختیار کر گیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تارکین وطن نے غذائی اشیاء، اشیائے صرف وغیرہ میں جعلسازی کا دھندا بھی بڑے پیمانے پر شرو ع کردیا۔غیر تربیت یافتہ کارکن بھی کثیر تعداد میں مملکت میں داخل ہوگئے۔ 
سعودی حکومت نے لیبر مارکیٹ کو منظم کرنے اور اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کیلئے ان تمام شعبوں سے متعلق سخت قوانین و ضوابط جاری کردیئے جوسعودی لیبرمارکیٹ اور معیشت کو گھُن کی طرح کھا رہے ہیں۔ یقین رکھیں کہ سعودی لیبر مارکیٹ سے متعلق حالیہ فیصلوں سے صرف اور صرف غیر قانونی، غیر تربیت یافتہ اور غیر اہل تارکین وطن کو نقصان ہوگا۔ صرف ان غیر ملکیوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے جو بلیک مارکیٹ کو آباد کئے ہوئے ہیں۔ جہاں تک تربیت یافتہ ، باصلاحیت اور تجربہ کار تارکین وطن کا تعلق ہے تو لیبر مارکیٹ کا مسابقتی ماحول انکی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے اور انکی خدمات حاصل کرتا رہیگا۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: