Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اک انشا نام کا دیوانہ

عالمی اردو مرکز کااہتمام، شوکت جمال کا آشیانہ مقام، ابن انشاکی شام
جاوید اقبال۔ریاض
مزاح ، ذومعنویت اور طنز تینوں اضافِ بیان تو ہیں لیکن سامع اور قاری کے لئے بڑی واضح حدود فاضل کھینچتی ہیں۔ مزاح اس کے لبوں کو لطیف انداز میں تبسم آشنا کرتا ہے تو ذومعنویت اسے متبسم کرنے کے علاوہ اس کے گوشہ¿ دل میں کسک بھی پیدا کرتی ہے اور طنز تو نشتر ہے چیرتا چلا جاتا ہے۔ اردو ادب بڑے نصیبوں والا ہے۔ اسے ان تینوں اصناف میں کبھی بھی تہی دامانی کا احساس نہیں ہوا۔ لکھنے والوں نے نہایت شستہ اور لطیف انداز میں ہر دور کے قاری اور سامع کو مسکراہٹیں دیں۔ کس کس کا نام لیں۔ ایک ابن انشا بھی تھا۔ شاعر ،نثر نویس ، کالم نگار ، سفر نامہ نویس ، جب تک زندہ رہا دھوم مچائے رکھی۔ پھر خاموشی سے ، بیماری کے ہاتھوں تنہائی جھیلتے برطانیہ میں موت کو گلے لگا گیا۔
انشا جی اُٹھواب کوچ کرو
گزشتہ ہفتے اس شہرہ آفاق شخصیت کو ریاض میں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔عالمی اردومرکز، ریاض کے زیر اہتمام مشاعرہ تھا۔ مرکز کے منتظم اعلیٰ شوکت جمال کی رہائش گاہ پر اس تقریب کا انعقاد ہوا۔ صدارت بزم یاران ریاض کے صدر عقیل قریشی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض یوسف علی یوسف نے انجام دئیے۔ ابن انشا کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں منصور محبوب ، سید محسن رضا سمر ، شاہد خیالوی ، صدف فریدی ، یوسف علی یوسف ، شوکت جمال ، سلیم کاوش اور حشام احمد سید شامل تھے۔
اسے بھی پڑھیں:آہ! منو بھائی، دبستان ادب سونا ہوگیا
مشاعرے کے آغاز میں ناظم نے ابن انشا کا تفصیلی تعارف کرایا اور کہا کہ دنیائے ادب انہیں شاعر ، مزاح نگار ، سفر نامہ نویس اور کالم نگار کے طو ر پر پہچانتی ہے۔ ان کا اصلی نام شیر محمد خان اور تخلص ابن انشا تھا۔ 15 جون 1927ءکو جالندھر کے ایک نواحی گاﺅں میں پیدا ہوئے۔ 1945ءمیں جامعہ پنجاب سے بی اے اور 1953ءمیں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ 1942ءمیں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کے طور پر تقررہوا۔ ٹوکیو بک ڈیویلپمنٹ پروگرام کے نائب چیئرمین اور ایشین کوپبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔پاکستان کے معروف جردو روزناموںاوران کے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار میں فکاہیہ کالم لکھتے رہے۔ متعدد شعری مجموعوں ، سفرناموں اور کتب کے خالق تھے۔ 1960ءمیں چینی نظموں کا منظوم ترجمہ ” چینی نظمیں“ کے زیر عنوان اشاعت پذیر ہوا۔
بعد ازاں شعراءنے اپنا کلام پیش کیا۔
خوبصورت خیال! نفیس انتخاب الفاظ! انتخاب نذر قارئین ہے: 
منصور محبوب کے روایتی خیال میں جدت کا انداز داد کے قابل ہے۔
میرے لبوں کو پرو دیا ہے کہ آہ سوزاں نکل نہ پائے
یقیں سے پھر بھی تری سبھا میں ندا براہ نظر گئی ہے
بنے مرکب اگر عمل کا تو قوت جذب میں ہے تاثیر
زبان تنہا جدھر گئی ہے، سدا یہ صد بے اثر گئی ہے
سید محسن رضا کے مزاحیہ قطعات نے محفل کو گرما دیا تاہم غزلوںمیں تازگی اور سوچ تھی۔ ملاحظہ ہو:
تجھ سے ہوتی ہے میری سوچ شروع ، تجھ پہ ختم
ذہن جیسے کسی پرکار پہ رکھا ہوا ہے
پھر نئے گھر کا نہ رکھ دے کوئی سنگ بنیاد 
سخت پہرہ دل مسمار پہ رکھا ہوا ہے
یوسف علی یوسف کے خیال میں قصہ¿ امروزکا پرتو تو تھا لیکن غم جاناں کا قصہ بھی تھا:
حد زمان و مکاں کی گرفت میںمحصور
اسیر روز و شب و ماہ و سال جیتے ہیں
جو زیست کرنے کا فن جانتے ہیں وہ یوسف
بسا کے دل میں کسی کا خیال جیتے ہیں
صدف فریدی کے ڈکشن نے اس دور کو آواز دی جب انشا نام کا دیوانہ قاری کو مسحور کئے تھا:
ایک بند ملاحظہ ہو:
ہم دشت جنوں کے دیوانے
کچھ قرض چکانے آئے ہیں
ہم آبلہ پا ، ہم تشنہ لباں
زخموں کا سود بیاج کہاں
ہم جوگی ہیں ، بیراگ ہیں ہم
ہے اپنے سر پر تاج کہاں
اور اپنا جنوں ہے آئینہ
کوئی گرد نہیں ، کوئی دھول نہیں
ہم دست و گریباں کے وارث
کوئی چوک نہیں ، کوئی بھول نہیں
سلیم کاوش کا شعر حسن و خیال کے باہمی ربط کا آئینہ تھا۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
یہ تیرے ہونٹ ہیں یا دو مصرعے
بس یہی شعر ہے بیاض مری
عکس تیرا ہے میرے شعروں میں 
اب کہاں شاعری ہے راز مری
خلیج میں فکاہیہ شاعری کا ذکر شوکت جمال کے نام کے بغیر نامکمل اور تشنہ رہے گا۔ حالات حاضرہ پر ان کا تبصرہ حقیقت حال پر سوچ کی دعوت دیتا تھا:
بدکلامی کی جسارت کی سزا کچھ بھی نہیں
اور اصولوں سے بغاوت پر سزا کچھ بھی نہیں
کس لئے خوف ہو بیگم کی عدالت کا مجھے
اب تو توہین عدالت پہ سزا کچھ بھی نہیں
حشام احمد سعید ایک ہمہ جہت شاعر ہیں۔ ان کا کلام قاری کو سوچ کی عمیق وادیوں میں لے جاتا ہے۔ دینی اقدار کے علاوہ معاشرتی کرب بھی ان کے اشعار کا موضوع ہوتے ہیں۔ ابن انشا کی غزل ” انشا جی اُٹھو اب کوچ کرو “پر ان کی تضمین نے خوب داد حاصل کی:
تم میری سنو ، کچھ ہوش کرو ، یہ ہر دم رونا رُلانا کیا
اک جہد مسلسل کرتے رہو ، ہردم قسمت کا بہانا کیا
ہے دجل کا دور تو کیا پروا ، تمہیں اپنا کام تو کرنا ہے
حق بات کا تم پرچار کرو ، یہ دنیاکیا ، یہ زمانہ کیا
صدر مجلس عقیل قریشی نے اپنے خطاب میں ابن انشا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب میں فکاہیہ نویسی ابن انشا کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ ابن انشا قابل رشک انداز میںاکبر الٰہ آبادی کا سلسلہ آگے بڑھا گئے۔ ناقد جب بھی مزاح نویسوں کا ذکر کرے گا تو سید ضمیر جعفری اور انور مسعود کی صف میں ان کا نام بھی شامل کرے گا۔ عقیل قریشی نے عالمی اردو مرکز کا پروگرام کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ایسی محافل آئندہ بھی منعقد ہوں گی۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے والد امین قریشی کی غزل ترنم سے پیش کی اور محفل کو گرما دیا۔ انداز بیان کی پختگی اور خیال کی برجستگی پر سب نے داد دی، ملاحظہ ہو:
وہ آئیں ان کو گوارہ ہوا ، ہوا نہ ہوا
ہمارے درد کا چارا ہوا ، ہوا نہ ہوا
ہمیں تو ان کے تصو ر سے کام ہے شب و روز
انہیں خیال ہمارا ہوا ، ہوا نہ ہوا
 

شیئر: