ادب ڈیسک :الخبر
شاعری ذہن کے گوشوں سے خیال کو نکال کر خاص پیمانے سے ناپ کر قرطاس پر اتارنے کا نام ہے۔ یہ صلاحیت خدادا د ہوتی ہے۔ منطقہ شرقیہ سعودی میں مختلف تنظیمیں شعر و ادب کی آبیاری کر رہی ہیں۔ منطقہ شرقیہ کی ایک فعال ادبی تنظیم ”بزم ِ کامرانی“ نے مسعود جمال کے دولت کدے پر بین الاقوامی شہر ت کے حامل، منفرد لب و لہجے کے شاعر، خاکہ نگار اور اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم کے روحِ رواں اقبال احمد قمر کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔ نشست کی صدارت عالمی شہر ت یافتہ، مملکت سعودی عرب کے پہلے صاحبِ دیوان شاعرسید نعیم حامدعلی الحامد نے کی۔ مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر صاحبِ جشن اقبال احمد قمر اور منفر د اسلوب کی شاعرہ نگہت مرزا حنا جلوہ افروز تھے۔ نظامت کے فرائض مسعود جمال نے اپنے خوبصورت انداز میں ادا کئے ۔ تقریب دوحصوں پر مشتمل تھی۔ پہلے حصے میں اقبال احمد قمر کے فن پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔
نشست کا آغاز تلاوت ِ کلام سے ہو ا جس کی سعادت مترنم لہجے کے شاعر و ٹوسٹ ماسٹر ز کلب کے ایریا گورنر وقار صدیقی نے حاصل کی۔ منفرد اسلوب کی شاعرہ و سفرنامہ نگار غزالہ کامرانی نے نعت طیبہ پیش کی۔ مسعود جمال نے استقبالیہ کلمات میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے صاحب جشن کے حوالے سے کہا کہ اقبال احمد قمر نے شعرو ادب کی آبیاری کی ہے۔ اِن کے فن کی پختگی ہی ایک ثبوت ہے۔ انہوں نے اس موقع پر اقبال احمد قمر کو ایک توصیفی سپاس نامہ بھی پیش کیا۔
محمد ایوب صابر نے اقبال قمر کے فن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ان کا فنی سفر تقریباً ربع صدی پر محیط ہے۔ اس عرصے میں آ پ ایک مسافر کی نہیں بلکہ میرِ کارواں کی حیثیت سے منزل کی جانب عازمِ سفر رہے ۔ ان کی شاعری ان کے وسیع مطالعے اور گہری مشاہداتی حِس کی مظہر ہے ۔انہوں نے قافیہ اور ردیف کا پیٹ بھرنے کے لئے شاعری نہیں کی بلکہ معنویت اور مقصدیت سے مزین الفا ظ کو قرطاس کی زینت بنایا ۔ اقبال احمد قمر نے اپنی شخصیت کی وضع داری اور تمکنت کو شعروں میں اس طرح ڈھالا کہ ان کی شاعری اقبال احمد قمر کاپرتو نظر آتی ہے ۔ سادہ الفاظ میں گہری بات کہنے کا فن ان کے ہاں ہر صفحہ قرطاس پر بکھرا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں اس قدر بے ساختہ پن ہے کہ ان کے شعر سامع یا قاری کو یا د ہو جانا ایک عام سی بات ہے۔ ان کے شعری منظرنامے میں غمِ دوراں کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ اقبال احمد قمر کا بے ساختہ انداز قاری کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے ۔ وقتِ رخصت ایک نازک اور کربناک گھڑی ہوتی ہے جس میں سارا بدن اند ر سے کانپ اٹھتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اندر سے دیوارِ دل ڈھے گئی ہے۔ ذرا اقبال احمد قمر کا انداز بھی ملاحظہ کریں:
وقت ِ رخصت وہ گلے لگ کے مرے یوں رویا
جیسے گرتی ہو ئی دیوار پہ دیوار گرے
ڈاکٹر عابد علی نے منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ:
رکھتے ہیں علم و فن میں وہ اپنا الگ مقام
خود آپ اپنے عہد کی پہچان ہیں قمر
ہیں وہ دیارِ غیر میں مقبول ہر طرف
اک با وقار شاعرِ ذیشان ہیں قمر
مہمان خصوصی سینیٹر نگہت مرزا حنا نے کہا کہ ہم برسوں سے اقبال احمد قمر کو منطقہ شرقیہ میں شعرو ادب سے وابستہ دیکھ رہے ہیں۔ صدرِ مجلس سید نعیم حامد الحامد نے اقبال احمد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اِن سے ہماری برسوں کی شناسائی ہے۔ انہوں نے ادب کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔میں جب بھی منطقہ شرقیہ آتا ہوں ، ہر دفعہ اقبال احمد قمر سے ادبی تقریبات میں ملاقات ہوتی ہے۔
اب شعری نشست کا آغاز ہوا۔شعرا نے اپنے منتخب بہترین کلام سے خوب داد سمیٹی۔ ہر شعر توجہ حاصل کر رہا تھا۔ واہ واہ، مکرر ارشاد کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شعرا ءاور سامعین ہر اچھے شعر کی دل کھول کر ستائش کر رہے تھے۔ اس ماحول نے بزم کو ایک یادگار نشست میں تبدیل کر دیا۔ سید منصور شاہ ، شاہد جمال ، مسز شاہد جمال، فاروق پٹیل ،فرید خان، مسرت فرید ،ساجد فاروق،فرحان فرید ، فرقان فریدنے سامعین کی حیثیت سے شرکت کرکے محفل کی رونق کو دوبالا کر دیا۔ معراج دین صدیقی، رامز مرزا، مسعود جمال، غزالہ کامرانی، وقار صدیقی، ایوب صابر، ڈاکٹر عابد علی، افضل خان، سہیل ثاقب، نگہت مرزا حنا، ا قبال احمد قمر اور سید نعیم حامد الحامد نے اپنا کلام پیش کیا۔ غزالہ کامرانی نے شعراءاور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح یہ یاد گار محفل اختتام پذیر ہوئی۔ قارئین کے ادبی ذوق کے لئے شعرا ئے کرام کے کلام سے نمونے کے طور پر اشعار پیش خدمت:
٭٭مسعود جمال:
تیرے وفورِ عشق نے ، دیوانہ کر دیا
محفل سے آج میں یونہی رقصاں نکل گیا
٭٭رامز مرزا:
اب آئے ہو توذرا ٹھہر کے جانا جاناں
اور اب کی بارنہ یوں دل مرا دکھا جاناں
٭٭معراج الدین صدیقی:
کرو نبیکی اطاعت، فضا سنور جائے
جو ہو نبی سے محبت، فضا سنور جائے
٭٭غزالہ کامرانی:
دل کا موسم خزاں کا موسم ہے
کیوں یہ منظر ہرا نہیں ہوتا
کس سے سیکھی ہے ناوک اندازی
تِیر تیرا خطا نہیں ہوتا
٭٭ وقار صدیقی:
ہوتا جو تجھے اپنا ہی ادراک مرے دوست
پھر تُوکبھی ہوتا نہیں غمناک مرے دوست
دے دے کے تسلی مجھے بہلا تو رہی ہے
ورنہ ہے یہ دنیا بڑی سفاک مرے دوست
٭٭ڈاکٹر عابد علی:
روٹھ جانے کے لئے، بات بڑھانے کے لئے
اب وہ ملتا ہے فقط دل کو دکھانے کے لئے
سب نے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے خالی کتبے
کوئی آگے نہ بڑھا شہر بچانے کے لئے
٭٭محمدایوب صابر:
کتنی حسرت کی ہیں دیواریں مکیں کے اندر
ساتھ لے کر اُنہیں جاتا ہے زمیں کے اندر
حرف و معنی کا اجالاہے فلک سے اترا
روشنی بھر دی ہے مجھ خاک نشیں کے اندر
٭٭افضل خان:
لے آئے اُس مقام پہ چارہ گراں مجھے
حاضر میں اب قبول نہیں رفتگاں مجھے
اُس نے تو یہ کہاتھا کہ وہ لوٹ آئے گا
کب تک بچائے رکھے گی عمرِ رواں مجھے
٭٭سہیل ثاقب:
دھیرے دھیرے آسماں تاروں سے خالی ہو گیا
شہر میرا اب مرے پیاروں سے خالی ہو گیا
اک ترے جانے سے ایسا لگ رہا ہے کیوں مجھے
جیسے شہرِ عشق مٹیاروں سے خالی ہو گیا
٭٭نگہت مرزا حنا :
یہ تندو تیز ہوا بھی مخالفوں میں رہی
وگرنہ سر سے یونہی سائباں نہیں جاتا
وہ مصلحت کا کفن اوڑھ کر اگر رہتا
تو راہِ حق میں یونہی بے اماں نہیں جاتا
٭٭اقبال احمد قمر:
دل پہ ہو بوجھ تو اعصاب کہاں بچتے ہیں
نیند کب بچتی ہے اور خواب کہاں بچتے ہیں
تشنہ لب گر لبِ دریا کوئی مر جاتا ہے
وہ جو ہو جاتے ہیں سیراب کہاں بچتے ہیں
٭٭ڈاکٹر نعیم حامد الحامد:
مجھ کو عزت دی خدایا، میں تو اِس قابل نہ تھا
داورا، پروردگارا ، میں تو اِس قابل نہ تھا
آلِ ابراہیم میں پیدا کیا تُو نے مجھے
یوں میرا رتبہ بڑھایا، میں تو اِس قابل نہ تھا