کراچی ( صلاح الدین حیدر) ایم کیو ایم کے جھگڑے کا بالآخر ڈراپ سین ہو گیا ۔ پارٹی پالیسی ساز ادارے رابطہ کمیٹی نے ڈاکٹر فاروق ستار کو سربراہی کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ وہ اب صرف پارٹی کے بنیادی رکن رہ سکتے ہیں ۔ فاروق ستار نے جواب میں رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردی اور انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی اور کنور نوید جمیل نے فاروق ستارپر سنگین الزامات لگائے ۔ انکے خلاف اےک طویل چارج شیٹ جاری کی گئی جس میں انہیں دھوکہ سے پارٹی کے آئین کو تبدیل کرنے ، رابطہ کمیٹی کے اختیارات ہڑپ کرنے اور خدمت خلق فاﺅنڈیشن جو کہ پارٹی کا فلاحی ادارہ تھا اسے یکسر ختم کرنے اور نذیر میموریل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ملازمین کو 7,6 مہینوں سے بغیر تنخواہ کام کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے ۔ فاروق ستار اپنے گھر سے جہاں سے وہ متوازی پارٹی چلا رہے تھے ۔ اےک اعلان کے ذرےعے پوری رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے والے تھے ۔ ا س سے پہلے پوری رابطہ کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار کے گھر انکے بلائے ہوئے اجلاس میں شرکت کےلئے پہنچی لیکن کچھ دیر بعد اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ہیڈ کوارٹر بہادر آباد واپس آگئی ۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے ہر ممکن کوشش کر ڈالی کہ پارٹی میں دراڑنہ پڑ ے ۔ خالد مقبول صدیقی نے اےک خط کے ذرےعے سے الیکشن کمیشن کو پارٹی کے آئین اور ضابطہ اخلاق سے آگاہ کیا جسے کمیشن نے تسلیم کر لیا ۔ نسرین جلیل ، بیرسٹر فروغ نسیم ، امین الحق حتیٰ کہ کامران ٹیسوری تک کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے ۔ یہ سب کچھ فاروق ستار نے تسلیم کر لیا تھا ۔ الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسر سے بحث و مباحثہ کے بعد تحریری خط کمیشن کو دیا جس میں اپنے تمام اختیارات خالد مقبول صدیقی ڈپٹی کنوینر کو تفویض کر دئےے تھے ۔ امید کی ایک ہلکی سی کرن ابھری تھی کہ اب شاید کوئی مثبت شکل نظر آئےگی اور ایم کیو ایم تقسیم ہونے سے بچ جائےگی لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ پہلے کی اطلاع کہ رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو اپنا بھیجا ہوا خط واپس لے لیا ،غلط ثابت ہوا ۔ حقیقت میں مرض بڑھتا گیا تھا جوں جوں دوا کی۔