Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کائنات کی مہک، چاہت اور لگن کا ایک نام ’’ماں‘‘

 میرے پاس الفاظ نہیں کہ اپنی ماں کی شخصیت کو لفظوں کا پیرہن دے سکوں ،ابا کے ابدی سفر پر روانہ ہونے کے بعد ماں نے جس طریقہ سے بچوں کی پرورش کی وہ مثالی ہے
(اردونیوز کی کوشش ہے کہ نئے سے نئے سلسلے لاکر قارئین کو اپنے ساتھ شامل کیاجائے،میرابچپن،سفر نامہ کے ساتھ یہ نیا سلسلہ شروع کیاجارہا ہے جس میں قارئین اپنے والدین سے بے پناہ محبت اور ان کی قربانیوں کو قلم بند کرکے شائع کرسکتے ہیں،تصاویر روانہ کریں، رابطہ کیلئے۔[email protected]یا 00923212699629واٹس ایپ)
 
مسز زاہدہ قمر ۔  جدہ
خوابوں کا سفر
بحرِ زیست میں تیری،اُلفت کے جزیروں کے سُراغ
جلتے صحراوں میں ،شبنم کے موتی
بھیگی آنکھوں میں دمکتی۔آس کی جوتی
جگمگا اُٹھیں جیسے،اماوس کی راتوں میں چراغ
رُخ پہ اُجالے،ایسے ہوں رقم
دل سے مٹ جائیں،تاریکی ء غم
محسوس ہو ہر پل،لو دے رہے ہیںیادوں کے داغ
نہ الفاظ کے تاج محل ہیں نہ شاعری کا لباس فاخرانہ، سمٹی سمٹی سی یادیں اور ایک خوابوں کے نگر کی باسی، لوگ کہتے ہیں عورت مستقبل کے سُنہرے سپنے بنتی ہے ،مگر میں ؟؟ میں ماضی میں جی رہی ہوں اور یہی ماضی اب حال اور پھر مستقبل میں بھی میرے ساتھ ہمرکاب ہو گا میں ماضی کا سفر کیوں نہ کروں ؟؟ وہ جگنوئوں کے سے جھلملاتے رو شن دیئے میرے راستوں کو ضوفشانی دان کرنے والے کل کی داستان ہے۔ بھلا کوئی خوشبوئوں کے سفر کو بھی بھول سکتا ہے، ایسی مسحور کُن مہک جو جسم و جاں کو معطر کر دے۔ مخمور بنا دے جیسے تیری یاد ہو ’’مئے مینا و باغ‘‘ مگر کوئی کہے کائنات کی تمام مہک ، ساری چاہت، بے مثال خدمت، لازوال حُسن و دمکتی ، نزاکت، نرماہٹ، نور، شوخی، ترنم، بردباری، سادگی، معصومیت، مہرئو وفا، عبادت، لگن، زندگی کا ہر رنگ و آہنگ اور ابدی اُمید ان سب کو کوئی ایک نام تجویز کرو یا ایک وجود میں ٰؓٓ بیاں کرو تو میرا جواب ماں، ماں اور صرف ماں۔
میرے نزدیک دنیا میں ماں کے دم سے ہی جنت کا سماں ہوتا ہے۔ و ہ ہر جگہ ہمارے لئے جنت ہے ۔ وجود بھی جنت اور خدمت کرو تو انعام بھی جنت، ٹھنڈی بہار کی ہوا جیسا وجود ہر دم دُعا دینے والے لب اور جب یہ لب خاموش ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر تک کو تاکید کرے کہ ــ’’ کہ اے موسیٰ!سنبھل کر قدم رکھنا اب تمھاری ماں اس دنیا میں تمھارے لئے دُعا کرنے کے لئے موجود نہیں‘‘۔
میرا تخئیل کہتا ہے کہ ہر ماں ایک ہی جیسی ہوتی ہے وہ تخلیق کے مرحلہ سے گزرتی ہے اس لئے اپنے خالق کی سی مہربانی اور لطف کرم اسے اپنے خالق کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے ۔میری اماں بھی دنیا کی اور مائوں کی طرح اپنی اولاد کے لئے مہرومحبت کا پیکر تھیں مگر جو چیز ان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا خدمت خلق کا جذبہ خوفِ خُدا تھا۔ وہ ہر ایک سے پیار کرتیں۔ میں نے ان کو کسی کی غیبت کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی چیز پر شکوہ کناں ہوتے دیکھا۔ ان کا ابا سے پیار مثالی تھا۔ ہم بہن بھائیوں نے کبھی بھی اپنے والدین کا جھگڑا یا تکرار نہیں دیکھی ۔وہ عام خواتین کی طرح پیسوں کی تنگی کا گلہ نہیں کرتی تھیں۔ ان کو اپنی ذات پر پیسہ خرچ کرنے کا شوق نہیں تھا۔ بے حد سادہ مزاج خاتون تھیں ابا کی زندگی میں تو شاید انہوں نے تھوڑا بہت اپنا خیال بھی رکھا ہو جو کہ مجھے اتنا یاد نہیں مگر ابا کے بعد ان کی آخری سانس تک ہم نے انہیںکبھی بنا سنورا نہیںدیکھا۔ وہ بے حد صاف سُتھری رہا کرتی تھیں۔ پنچ وقتہ نمازی ہی نہیں بلکہ تہجد گُزار بھی تھیں ۔ بے حد حسین، عجیب ملکوتی سا حُسن تھا۔ انہوں نے ہمیں ہر کام کی تربیت دی، جب تک گھر خود سنبھالا مجال ہے جو ایک تنکا بھی فرش پر پڑا نظر آجائے۔ گھر بھی سنبھالا، بچے بھی، پڑھانا کھانا، تربیت، دین داری، دنیا داری، خدمتِ خلق غرض کوئی کام ایسا نہیں تھا جو انہوں نے نہ کیا ہو۔ نہ خاندان میں کسی کو ان سے شکایت تھی نہ خاندان سے باہر۔اپنے سُسرال والوں کی ابا کی زندگی میںہی نہیں بلکہ ان کے بعد بھی  خیال رکھا ۔مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دادی جان کی بیماری میںان کا اس قدر خیال رکھا کہ دادی جان نے اُنہیں زندہ ولی کا لقب دیااور رُخصت ہوتے وقت ابا سے وعدہ لیا کہ ’’اپنی بیوی کا بہت خیال رکھنا، اس نے میری بڑی خدمت کی ہے ‘‘۔
کہاں تک یادوں کی تتلیوں کوزندگی کے البم میں سجائوںاور اتنے جگمگاتے جگنوئوں کو کیسے دل کے جہاں میں محفوظ کروں ۔ یہ تتلیاں اور جگنو ان گنت ہیں ۔ جس کی ہر بات  روشن مینار ہو اس کا وجود کیا ہو گا ؟؟ثابت ہوا کہ ایک بظاہر ناتواں وجود وسائل کی کمی کے باوجود نیکی کے اُجالے بکھیر سکتا ہے۔ ہمارے حصے میں’’ ہماری خوش نصیبی کہ اپنے حصے کی نیکی ضرور کرو‘‘ قول و فعل دونوں طرح سے دمکتے ہیں اور ہماری بعد کی نسل شاید قول یا پھر کسی حد تک عمل کی صورت میں اپنے حصے کی نیکی کا تحفہ حاصل کر پائے۔
میرے پاس آنسوئوں اور دُعائوں کا ٹوٹا پھوٹا خراجِ تحسین بلکہ خراجِ عقیدت ہے۔ میںنے خود سمیت زیادہ تر خواتین کو دہری زندگی جیتے دیکھا ہے ۔ اپنی اولاد سے پیار ، اپنے گھر کی فکر، اپنے کل کی سوچ اور اپنے وجو د کا خیال اور جو اس سے ماوراء ہو جائیں وہ مسجودِ ملائک بننے والوں کے راستوں کے مُسافر ہوتے ہیں۔
عورت بیٹے سے پیار کرتی ہے اور بہو سے ؟؟ بیٹی سے محبت ہے اور داماد کے لئے مروت، میری ماں نے اپنی ساس (میری دادی) کی طرح ہر بہو کا خیال کیا۔ انہیں خود الگ گھر میں بسایا یہ کہہ کر کہ یہ بہوئیں ہمارا کنبہ بڑھانے اور برکت کے لئے گھر میں آئی ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ بہو الگ گھر میں رہنا چاہتی ہے، ہمارے گھر کو توڑ رہی ہے گھر الگ کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ آج ان ہی بہوئوں کے دل اور زبان پر اماں کے لئے دُعا ئیں ہیں۔ ان کے داماد تعریف کرتے نہیں تھکتے کیونکہ جو خاتون بہوئوں کو الگ گھر میں بسا سکتی ہے اور ان کے معاملات میں مداخلت کو پسند نہیں کرتی وہ خاتون اپنی بیٹیوں کے گھر میں کس طرح اپنا عمل دخل رکھ سکتی ہے۔ ان کے جوزندگی گُزارنے بلکہ سنوارنے کے چند اصول تھے ان میں سے سرفہرست اصول یہ تھا کہ بیٹی کے گھر یا سُسرال زیادہ نہیں جانا۔ بس سال 6 مہینوں میں ایک دو بار چکر لگا لینا بہت ہے۔ کیونکہ بیٹیاں اپنی تربیت اور قسمت سے ہی گھروں میں خوشحال رہ سکتی ہیں والدین کی بے جا مداخلت، عمل دخل یا آمدورفت کے باعث نہیں ۔میرے سُسرال والوں خصوصاً ساس کو تو ان کے اس محتاط رویئے سے باقاعدہ شکایت ہوتی۔ وہ میری اماں کی بڑی گرویدہ تھیں اور اصرار کر کرکے اُنہیں بلاتیں۔
قارئین! اللہ تعالیٰ ایسے نیک بندوں کی غیب سے مدد کرتا ہے ۔ ابا کے ابدی سفر پر روانہ ہونے کے بعد انہوں نے جس طریقے سے ہم سب کی پرورش کی وہ مثالی ہے۔
ان کی زندگی میں ہی ہم سب اپنے اپنے گھر کے ہو گئے۔ میری آخری بہن کی شادی کے 3 ماہ بعد وہ بیمار ہو ئیں اور ایسی بستر پر پڑیں کہ پھر اُٹھ نہ سکیں۔ میری زندگی کا سب سے بڑا دُکھ یہ ہے کہ میں ان کی کوئی خدمت نہیں کر سکی کیونکہ بہت دِ ن تک تو انہوں نے مجھے دور ہونے کے باعث میری تشویش کی وجہ سے سب کو ہدایت کر دی تھی کہ مجھے پتہ نہ چلے کہ وہ اسقدر علیل ہیں حتیٰ کہ جب وہ ایک دِ ن چکرا کر گریں اور بہت زخمی ہو گئیں تب بھی اُنہوں نے ہوش میں آنے کے بعد مجھ سے عام اور نارمل لہجے میں بات کی حالانکہ وہ فون تک پکڑنے کے قابل نہیں تھیں۔ جب تک مجھے علم ہوا بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ مجھے بہت یاد کرنے لگی تھیں میں جولائی میں ان سے ملنے پُہنچی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ان کی بیماری بڑھ چکی تھی۔ سکون اور درد سے آرام کے لمحات کم ہی میسر آتے تھے۔وہ ہر تکلیف پر اللہ تعالیٰ کو پُکارتیں ۔ تیسرا کلمہ تو بے ہوشی تک میں زبان پر جاری رہتا۔
ہم جب بھی ان سے پوچھتے کہ درد ہے اماں ؟؟ تو ان کا جواب بے حد نرمی سے ہوتا نہیں !! اب تو بالکل ٹھیک ہوں فکر نہ کرو۔وہ تھوڑی سی بہتر ہوئیں تو میری واپسی ہو گئی۔ یہاں آکر مجھے خوش خبری ملی کہ اب وہ بستر سے اُٹھ کر چلنے لگی ہیں۔ میں نے فون پر اُنھیں چھیڑا ’’اچھااب پائوں پائوں چلنے لگیں، میں وہاں تھی تو مجھے چل کر نہیں دکھایا۔ مجھے پریشان کیا اب میرے آتے ہی ٹھیک ہو گئیں’’وہ ہنس پڑیں۔ ’’ہاں میں ٹھیک ہوں ، اب آئوگی تو چل کر بھی دکھا دوں گی‘‘۔
اور "وہ اب" پھر نہیں آئی 17 ستمبر کو وہ بزم شہید آگیں لہجہ، نورانی چہرہ اور رحمتوں کا سائبان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھڑ گیا۔ان کی یادیں لہو بن کر رگوں میں دوڑتی ہیں ۔خون کے قطروں کو کون گن سکا ہے۔ ان کی جُدائی نے عجیب سی بے سکونی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیںکہ میں ان کی شخصیت کو لفظوں کا پیرہن پہنا سکوں ۔ اب وہ اس جگہ ہیں جہاںصرف ہماری دُعائیںہی جا سکتی ہیں۔ میری اپنے ہر قاری سے درخواست ہے کہ میری اماں کے لئے دُعا کریں ،اللہ تعالیٰ کے حضور میری دُعا ہے کہ جس طرح ہماری ماں نے صرف دُکھ بیماری میں ہی نہیں بلکہ صحت و تندرستی میں بھی ہماری خدمت کی اور خیال رکھا ۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ بھی ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ فرمایئے کہ آپ تو 70مائوں سے زیادہ مہر بان ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: