Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حالات بگڑے تو ذمہ داری جمعیۃ علماء اور پرسنل لاء بورڈپر ہوگی ، سلمان ندوی

لکھنؤ۔۔۔۔بابری مسجد اراضی کے سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سےعلیحدہ موقف رکھنے والے مولانا سلمان حسینی ندوی نے دو صفحات پر مبنی تحریری اعلان پیش کیا ہے جس میں انھوں نے جمعیۃ العلماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا ہے اور کئی باتیں لوگوں کے سامنے رکھی ہیں۔ اس تحریری اعلان میں انہوں نے کہا  کہ ملک کے حالات اگر بگڑتے ہیں تو اس کی مکمل ذمہ داری جمعیۃ علماء اور مسلم پرسنل لاء بورڈ پر عائد ہوگی۔
 
قارئین کیلئے پیش خدمت ہے
تحریری اعلان کے چیدہ چیدہ نکات
 الحمدللہ پورے ملک کو معلوم ہو گیا ہے کہ بابری مسجد کے بارے میں میرا موقف کیا ہے؟ اور ملک کے لیے میرا مشن کیا ہے؟ میں تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے پورا تعاون کرتے ہوئے میری بات لوگوں تک پہنچا دی۔میری بات یہ ہے کہ ملک میں ہندو، مسلم، بودھ، سکھ، عیسائی کے درمیان بھائی چارہ ہونا چاہیے، مذاہب کے لوگوں اور مختلف برادریوں کو یہ بات ماننا چاہیے کہ سب ایک رب کے بندے اور ایک باپ کے بیٹے ہیں۔ انھیں اپنے مسائل گھریلو طرز پر گھر کے اندر ہی طے کر لینا چاہیے۔بھائیوں کا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان دوری، نفرت اور عداوت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آپس میں مصالحت نہیں کر سکتے۔اس ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں یہ کھائی اور نفرت کی دیوار انگریزوں نے پیدا کی تھی۔ جدوجہد آزادی نے اس پر قابو پایا تھالیکن تحریک آزادی کا اختتام جس تقسیم پر ہوا، اس نے انگریزوں کی شیطنت اور عیاری کو ملک کے باشندوں پر غالب کر دیا۔آزادی کے بعد سے آج تک اس ملک میں انگریزوں کے ایجنٹ اور نفرت کے پرچارک فسادات کراتے رہے اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے جس میں سب سے بڑا ہاتھ کانگریس کا ہے۔بابری مسجد کے قضیہ میں مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی 91-1990 کی کوششوں کو فریقین کے شرپسندوں نے ناکام بنا دیا جس کے بعد مسجد شہید کر دی گئی اور پورے ملک میں بے دردی سے خون مسلم بہایا گیا۔ اب پھر حالات گرما گرم ہیں۔ ہم لوگوں نے 5 چھ مہینوں سے ایک مصالحتی فارمولہ پر اپنی کوششیں صرف کیں، جو جاری رہیں گی۔ عدالت سے باہر ہی مسائل کو حل ہونا چاہیے، یہی شریفانہ طریقہ ہے اور یہی داعیانہ طرز و اسلوب ہے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ العلماء کی یہ رائے ہے کہ ہم عدالت کے فیصلہ کا ہی انتظار کریں گے، میرا ان سے اختلاف ہے، میں نے حیدر آباد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ میں اپنے اختلاف کا تذکرہ کیا، جس پر جو رد عمل ہوا سب کو معلوم ہے۔مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنا موقف تبدیل کر لوں، میں نے صاف طور پر اس سے انکار کیا۔ مولانا ارشد مدنی کے بیانات سے معلوم ہوا کہ ان کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ مجھے رجوع پر آمادہ کریں تاکہ میں پرسنل لاء بورڈ میں واپس آ سکوں۔میں مولانا ارشد مدنی سے عرض کرتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کے بھتیجے نے آپ سے اختلاف کیا تھا تو میں نے آپ کے حق میں اپنے موقف کا اعلان کیا تھا، اس لیے کہ آپ مولانا محمود مدنی کے چچا ہیں، باپ کی جگہ پر ہیں، علم و تقویٰ میں فضیلت رکھتے ہیں، جس کے بعد آپ نے اپنے جلسوں میں مجھے بلانا شروع کیا۔ آپ کی جرأت اور صداقت اور سرگرمی کی بنیاد پر میرا یہ مطالبہ تھا کہ آپ امیرالہند قرار دیئے جائیں۔   مجھے جمعیۃ العلماء کے کسی عہدہ، اور نہ اس کے اسٹیج کی ضرورت ہے۔اب بڑی شفقت سے مولانا فرما رہے ہیں اور بہت سے محبین کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنا موقف تبدیل کر لیں، تو آپ کو پرسنل لاء بورڈ میں لے لیا جائے گا، میں ان پر ہنستا ہوں اور روتا ہوں، مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کیا بڑے اصحاب علم بھی بات نہیں سمجھ پائے۔میں نے اپنے موقف کی وجہ سے مسلم پرسنل لاء بورڈ سے علیحدگی اختیار کی ہےجو حضرات بغلیں بجا رہے ہیں کہ ہم نے ان کو نکال دیا، وہ خوش ہو لیں، مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔
  • 1.  مجھے ان سے ہر قضیہ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے اور ملت کی بڑی رقومات وکیلوں پر خرچ کرنے کی پالیسی سے پرانا اختلاف ہے۔
  • 2.  مجھے تین طلاقوں کے قضیہ میں پہلے دن سے ہی ان سے اختلاف ہے۔
  • 3.  مجھے بابری مسجد کے مسئلہ میں ان کی پالیسی سے اختلاف ہے۔
  • 4.  مجھے ان کی موجودہ انتظامیہ سے اختلاف ہے۔
    اس لئے جو لوگ بابری مسجد کے مسئلہ میں میرے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کا استعمال کر رہے ہیں کہ مولانا سلمان مسجد کی زمین مندر کو دے رہے ہیں، کورٹ کے فیصلہ سے پہلے یہ بیچ میں کیوں کود پڑے؟ یہ روی شنکر سے کیوں ملے؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں آنے والا ہے؟بڑے چھوٹے، عوام و خواص کی ایک تعداد اس کا شور مچائے ہوئے ہے۔اس لئے میں اب یہ اعلان کر رہا ہوں کہ ہمارا موقف وہی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارہ ہونا چاہیےاور اس کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن 14 مارچ کا ہم انتظار کررہے ہیں تاکہ عدالت علیا اپنی کارروائی شروع کر دے اور میری چیف جسٹس سے عاجزانہ درخواست ہے کہ براہ کرم یومیہ سماعت کے ساتھ مارچ کے اندر ہی اپنا فیصلہ صادر کر دیں۔ 25 سال گزر گئے۔ کتنے ذمہ دار دنیا سے رخصت ہو گئے اور کتنے چراغ سحری ہیں۔براہ کرم سپریم کورٹ جلد از جلد اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ العلماء کے حق میں آنے والا ہواور میں اس میں رکاوٹ بن جاؤں۔میں تو چاہتا ہی ہوں کہ مسجد بنے، کیسا اچھا ہو کہ ان بزرگوں کی تمناؤں کے مطابق بن جائے، اس دوران اور اس کے بعد ہماری متحدہ کوششیں امن و بھائی چارہ کی جاری رہیں گی، عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی جاری رہیں گی۔میں مسلمانوں سے کہتا ہوں اگر خدانخواستہ حالات بگڑتے ہیں تو اب اس کی مکمل ذمہ داری جمعیۃ العلماء اور پرسنل لاء بورڈ کے کاندھوں پر ہوگی، ہم ان کی رائے اور فیصلہ سے عنداللہ اور عندالناس بری ہیں۔ ہم نے دعوت توحید و انسانیت، اتحاد و اتفاق و اخوت و محبت، شریعت کی وسعت اور مسالک میں گنجائش کی حجت 125 کروڑ انسانوں کے سامنے پوری کر دی۔

شیئر: