Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محکمہ ٹریفک سن لے ....یہ خلاف ورزیاں ناقابل قبول ہیں

ڈاکٹر خیریہ السقاف ۔ الجزیرہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹریفک نظام موثر اور مضبوط ہونا چاہئے۔ فیصلے ٹھوس ہوں ۔ شاہراہوںاورسڑکوں کو محفوظ و مامون بنانے کیلئے سخت فیصلے ناگزیر ہیں۔ ہمارے سامنے اس حوالے سے ترقی یافتہ اقوام کے روشن تجربات بھی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جاپانی شہری چلتے ہوئے راہگیر کو سیلوٹ کرکے ہی آگے بڑھتا ہے۔ 
ہمارے یہاںسیکیورٹی اداروں نے جرمانوں کی روش اختیار کی ہے۔ خلاف ورزیوں پر ڈرائیوروں اور پیدل چلنے والوں کی آگہی اور ان میں قوانین و ضوابط کی پابندی کے حوالے سے بیداری بھی کوئی چیز ہے۔یہ بتایا جانا اپنی جگہ بیحد اہمیت رکھتا ہے کہ آپ شاہراہ سے گزر رہے ہوں یا سڑکیں استعمال کررہے ہوں یا گلیوں سے آجارہے ہوں، پیدل چل رہے ہوں یا گاڑیوں پر سوارہوں ہر ایک قواعد و ضووابط کی پابندی کرے۔ ممنوعہ امور سے پرہیز کرے۔ 
میں اپنی بات ایک مثال دیکر واضح کرنا چاہوں گا کہ ہمارے یہاں اسپتال ، پولی کلینک،چھوٹے بڑے تجارتی مراکز اپنے یہاں پارکنگ میں ایسے رہنما بورڈ نصب کرنے سے گریز کررہے ہیں جن سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہو کہ فلاں فلاں جگہوں پر گاڑی پارک کی جاسکتی ہے اور فلاں جگہ گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ اہتمام بھی ہو کہ اگر کوئی شخص سواری کو اتارنا چاہے تو ایسی صورت میں اسکے لئے جگہ مخصوص ہو اور نا حق اس پر ٹریفک خلاف ورزی کا جرمانہ عائد نہ کردیا جائے۔ 
مذکورہ اصول کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے مریضوں کے رشتہ دار یا معذور حضرات پر پلک جھپکنے میں ایسے موقع پر جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے جہاں اسے گاڑی روک کر سواری کو اتارنے یا معذور کو اترنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ہمارے یہاں اس حوالے سے نامعقول قسم کے جرمانے کثیر تعداد میں لگائے جارہے ہیں۔ اسپتال پہنچ کر مریض کو اتارنا مجبوری ہے۔ اسی طرح سے معذور شخص کا اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے قریب گاڑی روکنا مجبوری ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ جیسے ہی ایسی کسی جگہ کوئی گاڑی روکتا ہے پلک جھپکتے میں اس پر جرمانہ کردیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سگنل توڑنے ، حد سے زیادہ رفتار سے گاڑی چلانے، ٹریک تبدیل کرنے جیسی خلاف ورزیوں اور مبینہ خلاف ورزیوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ ٹریفک انتظامیہ کو سڑکوں ، تجارتی مراکز کے آس پاس ، اسکولوں کے اطراف اس قسم کی خلاف ورزیوں کی بابت اپنے رویئے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
نقصان سراسر گاڑی والے کا ہوتا ہے۔ بلا ارادہ ، بلا قصد غلطی پر اسے جرمانے سے نواز دیا جاتا ہے۔ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ ضرورت ممنوعہ شے کو جائز کردیتی ہے۔ مجبوری کے عالم میں کسی بھی تصرف پر احتساب محکمہ ٹریفک کے اہلکاروں کو زیب نہیں دیتا۔
میونسپلٹیوں کے عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر تجارتی مرکز ، پولی کلینک، اسپتال، عمارتوں ، شاہراہوں ، چھوٹی سڑکوں پر پارکنگ کو منظم کرائیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی ذمہ داری بہتر شکل میں ادا کرنے کا اہتمام کرےں۔
مجبوری کی حالت میں ہونے والی خلا ف ورزیوں پر جرمانے ناقابل قبول ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ٹریفک اہلکار اس قسم کی خلاف ورزیوں پر جرمانے لگانے میں بڑے چاق و چوبند اور چست و توانا بنے رہتے ہیں۔ دیکھا جارہا ہے کہ اگرکوئی شخص کسی تجارتی مرکز یا پولی کلینک یا اسپتال یا اسکول یا کسی عمارت کے سامنے کسی ایسی جگہ جہاں گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں سواری کو اتارتا ہے یا کوئی معذور وہاں رکتا ہے یا کوئی رشتہ دار اپنے عزیز مریض کو اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً ہی متعلقہ ادارے کا اہلکار اس پر آگے بڑھ کر جرمانہ عائد کردیتا ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں۔ پتہ نہیں ٹریفک قوانین و ضوابط کے اندر عدل و انصاف کے تقاضے کب پورے کریں گے۔ جب تک تمام انتظامات مطلوبہ شکل میں نہ ہوں تب تک اس قسم کی خلاف ورزیوں پر جرمانے لگانے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: