Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدلیہ اور پارلیمنٹ میں تصادم کا انجام کیا ہوگا؟

کراچی(صلاح الدین حیدر)28جولائی کو نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نااہل ہوئے تو عام خیال ےہ تھا وہ شاید خاموشی سے وقت کا انتظار کریں لےکن انہوںنے نہ صرف عدالتی فیصلے کے خلاف بلکہ چیف جسٹس اورتمام سینئراور قابل احترام ججوں کو چن چن کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ بات اگر ےہیں تک رہتی تو شاید زخم مندمل ہوجاتے لےکن ن لیگ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے کہنے پر نیا محاذ کھول دیا۔ انہوںنے پارلیمنٹ کو عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جو کسی بھی طوفان کا پےش خیمہ ہو سکتاہے۔ کئی اےک سابق عدالت عالےہ اور عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان اور ٹی وی مبصرین نے اس پر بھرپور پروگرام کئے ۔سب کا محاصل ےہی تھا کہ وزیر اعظم کے حکم سے پارلیمانی کارروائی اور ججوںکے کارناموں پر سیر حاصل بحث کرے۔ ملک کو بہت خطرناک صورتحال سے دوچار کرسکتاہے۔یہی شاہد خاقان عباسی تھے جنہوںنے صرف2 ہفتے پہلے ٹی وی انٹرویو میں اپنی پارٹی کے لوگوں کو عدالتی معاملات پر خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ذرائع ےہ بتاتے ہیں کہ پارٹی میں کچھ ضدی عناصر ایسے ہیں جنہیں ےہ بات بری لگی۔ انہوںنے وزیر اعظم کے احکامات پر تنقید بھی کی اور اپنے روئیے پر نظر ثانی کرنے کو کہا۔ایک او ر بات بھی قابل توجہ ہے شاہد خاقان عباسی نے صرف ہفتے پہلے ےہ بات کھل کر کی کہ نواز شریف نے انہیں کبھی کسی حکومتی معاملات میں 8مہینوں سے فون نہیں کیا نہ ہی کوئی ہدایات دیںلےکن صرف 2دن پہلے شاہد خاقان عباسی جو کہ نواز شریف کو اب بھی وزیراعظم کہتے ہیںنے نواز شریف نے ان کے گھر لاہور کے جاتی امراء میں ملاقات کی۔ شاہد خاقان نے ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ےہ بات منوالی کہ پارلیمنٹ میں اب ججوں کے کردار پر سیر حاصل بحث کی جائے گی۔انہوںنے مختصر تقریر میں پارلیمنٹ میں کہا کہ لوگوں کے منتخب پارلیمنٹ کے ممبران چور، ڈاکو، اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتاہے تو اب پارلیمنٹ بھی ججوں کا کردار زیر بحث لائے گی۔ ممبران کو چاہےے کہ وہ کھل کر بات کریں۔ جو کچھ نازیبا الفاظ چیف جسٹس سے منسوب کئے گئے ، وہ کسی اور مسئلہ پر کہے گئے تھے۔اےک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے صرف ےہ پوچھ لیا کہ پارلیمنٹر ینز کو ئی چور اور ڈاکوہیں جو اس طرح نازیبا الفاظ ججوں کے بارے میں کہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا جملہ استفہامیہ تھا۔ کوئی طنزےا تبصرہ نہیں تھا۔اسے مریم نواز اور خود نواز شریف نے عوامی جلسوں میں جی بھر کر اچھالا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے جملے سماعت کے دوران اکثر سوالات کی شکل میں پوچھے جاتے ہیں۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ نیب کے کیسز یکجا کرنے کی درخواست اپنے چےمبر میں سنےں گے۔چیف جسٹس نہیں چاہتے کہ ان کی ان کے جملوں کی ٹی وی اور نشرواشاعت کے ذریعوں پر اچھالا جائے۔ اس بات کی انہوںنے شکایت بھی کی ہمارے جملے اکثر سیاق و سباق کے حوالے سے صحےح نشر نہیں کئے جاتے، جس کا الٹا اثر ہوتاہے۔ وزیر اعظم نے ےہاں تک کہہ دیا کہ کیا ہم اب کس سے پوچھ کر قانون بنائےں۔پارلیمنٹ کو حق ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔اس کا بنایا ہوا قانون رد نہیں کیا جاسکتا۔ جو بات وزیر اعظم صاحب بھول گئے وہ ےہی تھی کہ ملک کے آئین میں جج صاحبان اور پارلیمنٹر ینز دونوں ہی کو تحفظ دیا گیا۔ آئین میں جہاںپارلیمنٹ میں بحث کرنے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیںکیا جاسکتا۔وہیں ججوں کا کردار بھی آرٹیکل 68کے تحت پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ قانونی ماہرین، اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ آخر اس تصادم کا انجام کیا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو ےہ آئےنی حق کہ پارلیمنٹ کا پاس کیا ہوا کوئی بھی قانون اگر آئےن سے متصادم ہے یا حقوق انسانی کے خلاف تو وہ اسے ردّ کرسکتی ہے،دنیا بھر میں جمہوری آئین میں ےہ بات صاف طور پر تسلیم کرلی گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وزیر اعظم کی اپیل ےہ کہہ کر ٹرخا دی کہ بات بہت آگے بڑھ گئی ۔ شروع میں اس بات کا تذکرہ کرنا چاہےے تھا۔ بہرحال اگر پارلیمنٹ اس مسئلے کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہتی ہے تو پیپلز پارٹی تعاون کے لئے تیار ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے تو ےہاں تک کہہ دیا کہ ہم کسی چپراسی کو نکال نہیں سکتے اس کے خلاف کوئی انتباہی کارروائی بھی نہیں کرسکتے فوراً ایک اسٹے آرڈر آجاتاہے۔ انتظامیہ تو پھر زخمی پرندے کی مانند ہوجائے گی۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے جواباً ےہ کہا کہ نواز شرےف جانتے ہیں کہ چند دنوں میں ان کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے آنا شروع ہوجائےں گے،وہ حفظ ماتقدم کے طور پر ججوں پر پریشر ڈلوانا چاہتے ہیں لےکن نواز شریف ےہ بھول گئے کہ اگر مصلحت نہ کی گئی تو خوفناک تصادم ہوگا جو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بھی بن سکتاہے۔
مزید پڑھیں:عدالتی اختیار پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے ،شاہد خاقان
 
 

شیئر: