خلف الحربی ۔عکاظ
سب سے پہلے تو میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جب لوگ پتے ایک دوسرے میں گڈمڈ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اوربات چیت کو آگے پیچھے کرکے مطلب کچھ کا کچھ پیدا کردیتے ہیں۔ میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتاہوں کہ غیر ملکی کارکنان کے مسئلے میں وطن عزیز اورہموطنوں کے مفادات کو اوپر رکھنے کا جو لوگ علم بلند کئے ہوئے ہیں میں ان کے ساتھ ہوں۔ میں ان سرمایہ کاروںکے خلاف ہوں جو غیر ملکی کارکنان کو سعودی کارکنان پر ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ رویہ نہ صرف قوانین کے منافی ہے بلکہ اس سے وطن عزیز کے مفادات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
مجبوری کی اس وضاحت کے بعد اب بلا ادنیٰ خو ف و تنقید میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مجھے مختلف ممالک کے غیر ملکیوں کے خلاف بعض سعودی نوجوانوں میں رائج منفی لب و لہجے اور زبان پر حیرت ہے۔ مختلف ممالک کے غیر ملکی وطن عزیز کی تعمیر میں ہمارے شریک کار ہیں۔ یہ لوگ دارالخیر اور دارالکرم میں ہمارے پہلو بہ پہلو اقامت پذیر ہیں۔ یہ بات ہمیں زیب نہیں دیتی کہ ہم غیر ملکیوں کے حوالے سے منفی باتیں کرکے انکے اطراف منفی ذہنیت کا حصار قائم کریں۔ یہ لوگ بھی ہمارے اس معاشرے کا ہی حصہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انکی شہریت ہماری شہریت سے مختلف ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میری نظر میں ”اجانب “ (غیر ملکیوں کی اصطلاح) کا استعمال کوئی اچھی بات نہیں۔ اس قسم کی اصطلاح کا استعمال ایک طرح سے غیر ملکیوں کو الگ تھلگ کرنے کی کھلی دعوت دینا ہے۔ انہیں ہماری ریاست ”مقیم“ کی تعبیر سے متعارف کرائے ہوئے ہے۔ جس طرح ہم سعودی عرب سے فائد ہ اٹھا رہے ہیں یہ لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہاں انہیں پُروقار زندگی، امن و امان اور سکون و اطمینان کے مواقع ویسے ہی نصیب ہیں جیسا کہ ہم لوگوں کو حاصل ہیں۔ یہ لوگ یہاں قیام کے بدلے ہمیں بے شمار فائدے پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ مملکت کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگر ہمیں انکی ضرورت نہ ہوتی تو ہم انہیں نہ بلاتے۔مفاد مقیمین کا بھی ہے اور ہمارا بھی۔
میں ایسے ممالک کے تجربات کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتاجو اپنے یہاں باہر سے آنے والوں کی آمد پر تالے لگائے ہوئے ہیں اور مختلف ممالک کے لوگوں کو شک و شبہ ، خوف اور خدشہ کی نظرسے دیکھتے ہیں یا دیگر ممالک کے شہریوں کو کمتر اور خود کو برتر مانے ہوئے ہیں۔یہ ممالک ایک طرح سے خود کو دنیا بھر سے الگ تھلگ کئے ہوئے ہیں۔ اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس قسم کے ممالک ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔ ترقی کے اعتبار سے پیچھے کھڑے ہیں۔ تمدن کے باب میں پسماندہ ہیں۔ دیگر ممالک اور اقوام کی طرف اپنے ملک کے دروازے اور کھڑکیاں کھلی رکھنا،دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنا،معلومات کا تبادلہ کرنا ترقی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسکے بغیر ترقی نہیں ہوتی۔
یقینا مقیمین میں ایسے بھی ہیں جوغیر معیاری ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کے تصرفات مقررہ ڈگر سے ہٹے ہوئے ہیں لیکن اگر کچھ مقیمین غیر معیاری ہیں، اگر بعض مقیمین نامناسب تصرفات کررہے ہیں تو اس گناہ کا خمیازہ معزز مقیم کیوں برداشت کریں؟ دراصل قصور ان سعودی شہریوں کا ہے جنہوں نے قوانین کے ساتھ آنکھ مچولی کرکے انہیں درآمد کیا ہے۔ اسی طرح اگر بعض مقیمین کمپنیوں میں باصلاحیت سعودیوں سے ٹکر لیتے ہیں تو اس میں غلطی مقیمین کی نہیں بلکہ ان سعودی سرمایہ کاروں کی ہے جو اپنے ہموطنوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے حوالے سے اپنے فرض سے آنکھیں موند رہے ہیں۔ مثالیں بے شمار ہیں۔ بعض مقیمین سرکاری اسپتالوں میں اثر و نفوذ رکھنے والی شخصیات کے توسط سے سعودی شہریو ںکو کنارے لگائے ہوئے ہیں لیکن اس کے ذمہ دار بھی مقیمین نہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مجھے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وطن عزیز کی نعمتوں کے اولیں حقدار سعودی شہری ہیں مگر غیر ملکیوں کے خلاف شدید تعصب رفتہ رفتہ نسلی تفریق کی لہر میں تبدیل ہوجائیگا۔ یہ ہمارے ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ سعودی عرب کو اس سے بھاری نقصان پہنچے گا۔ بعض مقیمین ایسے بھی ہیں جو اسی ارض طائرہ میں پیدا ہوئے اور انکی بھاری اکثریت سعودی عرب اور اس کے باشندوں سے گہری محبت رکھتی ہے اور انکی وفاداریاں مملکت ہی کیلئے وقف ہیں۔ نسلی رجحانات کے خطرات غیر معمولی ہوتے ہیں۔یہ آندھی اور طوفان کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی راہ میں آنے والے بے قصور انسانوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جہاں تک دھوکہ بازوں کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ کی طرح کوئی نہ کوئی چکر چلا کر آندھی کے بھنور میں پھنسنے سے بچ ہی جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭