اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے مشیر نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی واپسی کو یقینی بنانے تک غزہ میں حماس کے اہداف کو نشانہ بناتے رہیں گے، جبکہ دوسری جانب یورپی ممالک نے جنگ بندی اور امداد کی رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیتن یاہو کے مشیر برائے خارجہ پالیسی اوفر فالک نے کہا ہے کہ عسکری دباؤ سے حماس کو نومبر 2023 میں پہلے معاہدے پر مجبور کیا تھا جس کے تحت تقریباً 80 یرغمالیوں کی واپسی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس طریقے سے یقیناً باقی 59 یرغمالیوں کی واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
غزہ جنگ بندی کے لیے امریکی تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماسNode ID: 887474
-
کچھ حصّوں کو ضم کرنے کی دھمکی، اسرائیلی فوج کی غزہ میں پیش قدمیNode ID: 887495
-
راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے لبنان پر فضائی حملےNode ID: 887513
’ملٹری دباؤ واحد وجہ تھی جس کی وجہ سے یہ مذاکرات کی میز پر واپس گئے تھے اور ہم اس وقت یہی کر رہے ہیں۔‘
نیتن یاہو کے مشیر نے جنگ بندی کی بحالی سے متعلق تفصیلات دینے سے انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جنگ بندی میں توسیع کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکاف کی تجاویز قبول کر لی ہیں۔
ان تجاویز کے تحت ماہِ رمضان کے بعد اور یہودیوں کے مذہبی تہوار پاس اوور تک جنگ بندی معاہدے میں توسیع کی جائے گی۔
’میں مذاکرات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم جنگ کے تمام اہداف حاصل کر لیں گے۔‘
حماس نے جنوری میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔

اسرائیل نے جنگ کے خاتمے اور غزہ سے اپنے فوجیوں کے انخلا پر بات چیت سے انکار کر دیا تھا۔
فلسطینی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں کم از کم 130 افراد ہلاک اور 263 زخمی ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے کہ جس میں اسرائیل سے انسانی امداد تک رسائی بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں امدادی اشیا کا داخلہ بند کر دیا ہے جبکہ نیتن یاہو کے مشیر اوفر فالک نے الزام عائد کیا ہے کہ ’حماس اپنے استعمال کے لیے امداد چوری کر رہا ہے۔‘
اکتوبر 2023 کے بعد سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں 49 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔