Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضرورت رشتہ: جدید انداز کی لڑکی کیلئے چاہئے جدید انداز کا لڑ کا

تسنیم امجد ۔ریا ض
ضرورت رشتہ کا کالم سامنے کھلا تھا،لکھا تھا ، ” ایک جدید انداز کی لڑکی کے لئے جدید انداز کا ہی لڑ کا چا ہئے ۔“ہم بحیثیت قاری اس معیار پر حیران ہو گئے۔ اشتہار میں یہ بھی ذکر تھا کہ لڑ کی کا نونٹ کی پڑ ھی ہو ئی ہے ۔نہ جانے جدید لڑ کے سے ان کی کیا مراد ہے ۔اس مادی دور میں تو اکثر مال و دولت اور حسن و جمال کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے جبکہ دینداری و سیرت کا نمبر ”استغفر اللہ“یا تو آ تا ہی نہیںیا سب کے بعد آ تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رشتو ں کی ٹوٹ پھو ٹ عام ہو چکی ہے ۔
ما ضی قریب کا وا قعہ ہے کہ ہماری ایک سہیلی فو ز یہ کی اکلوتی بیٹی کنول کا رشتہ آ یاتو اس کے والد کو بہت پسند آ یا جبکہ فو زیہ کو پسند نہ تھا۔لڑکے کا رنگ گورا نہیں تھا جبکہ شخصیت میںوجاہت تھی ۔اس نے سی ایس ایس بہت اعلیٰ نمبروںمیں پاس کیا تھا اور اب ملازمت کی کال کا منتظر تھا۔فو زیہ کی بیٹی نے بھی ما ں کی ہا ں میں ہا ں ملائی اور انکار کر دیا۔ اس طرح کہ اسے اسکی رنگت کا احساس دلایا۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ اکثر بہت ہی کم تعلیم یا فتہ لڑ کو ں کے رشتے آئے جو کسی صورت قابل قبول نہ تھے ۔ اگرچہ یہ سب رنگ کے گو رے تھے۔ اسی طرح دو تین سال گزر گئے ۔کنول نے یو نیور سٹی میںملازمت کر لی ۔اس نے اپنے مستقبل کا فیصلہ والدین کے ہاتھ میں دے رکھا تھا ۔
کنول کو ایک دن آ فس سے اطلاع دی گئی کہ اس کا تبادلہ اسلام آ باد ہو گیا ہے ۔3 دن کے بعد اسے وہاں جوا ئن کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔فو زیہ بہت اداس تھی۔وہ خود بھی اکیلا پن محسوس کر رہی تھی ۔نئی جگہ اسے بہت پسند آ ئی۔کو لیگ بھی نہا یت معاون اور پر خلو ص تھے۔ایک دن خبر ملی کہ پرنسپل اسٹاف میٹنگ کریں گے ۔سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہو گاچنانچہ تیاری سے آ ئیں ۔اگلے دن کا نفرنس ہال میں اس کی ڈیو ٹی ہر ایک کا تعارف کرانے پر لگا دی گئی ۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ آنے والا پرنسپل وہی لڑ کا تھا جسے وہ رد کر چکی تھی ۔اس نے جس طرح اپنی تقریر سے سب کے دل جیتے وہ الفاظ صرف محسوس کئے جا سکتے تھے۔سبھی شخصیات اس سے متا ثر تھیں۔کوئی اس کی شخصیت اور کوئی آواز اور لفظوں کی ادا ئیگی کی تعریف کر رہا تھا ۔قریب سے ہی آواز آئی کہ اس کی بیوی بھی بہت حسین ہے ۔پچھلے سال ہی شادی ہو ئی ہے ۔وہ سر درد کا بہانہ بنا کر کمرے میں چلی آئی۔اگلے دن اس نے استعفیٰ دے دیا اور واپس چلی آئی ۔
فوزیہ سے ہماری کبھی کبھار فون پر بات ہو جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کنول اب گھر میں رہتی ہے ۔عجیب ڈپریشن کاشکار ہے ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ زندگی کا ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کرنا چا ہئے لیکن بعض اوقات ہم سے غلط فیصلے ہو جا تے ہیں ۔اس لئے فیصلہ کرتے وقت اخلاقیات و روایات کو مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے ۔ہمارے معا شرے میںآئیڈیل کی تلاش اور پسند ،نا پسند کا چلن عام ہو چکا ہے ۔
مسز شین کا کہنا ہے کہ آج کل لڑکے مر ضی کے نہیں مل رہے ۔تینوں بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔کبھی لڑکا سا نولا ،کبھی مو ٹا اور کبھی چھو ٹے قد کا ہو تا ہے۔آ خر لڑکا ایسا تو ہو جو ساتھ چلتا ہوا اچھا لگے ۔گورا رنگ اوراسمارٹ ہونا ضروری ہے ۔
ایک خاتون ذات برادری کے چکر میںبیٹی کی عمر گنوا رہی ہیں۔وہ خود را جپوت ہیں اس لئے انہیں بیٹی کے لئے اسی ذات کا رشتہ درکار ہے ۔ان کا ایک بیٹا بھی ہے ۔اس کے رشتے کے لئے وہ بدلے کی شرط لگا دیتی ہیں ۔ایک اور خاتون بھی ” اُچے تے گورے“کی تلاش میں ہیں۔ہا ں اگر وہ ”کلا کلا ہو وے تے قبول ایہہ“کیونکہ بہن بھائی تو فساد ہیں فساد۔انہو ں نے منہ بناتے ہو ئے کہا ۔یہ سن کر ہم انہیں دیکھتے ہی رہ گئے اور دعا دی کہ کاش انہیں بیٹی کے لئے ان کی مر ضی کا ”بر“مل جائے ۔ویسے 4 برس سے تو جدو جہد جا ری ہے ۔ہم نے اگر ان کی مدد کی ٹھا نی ہوتی تو ہر ”اُچا تے لمبا “ہمیںبہن بھا ئیو ں کی قطار لئے ملتا ۔
پہلے لڑکے والے خوبصورت لڑ کی کی تلاش میں رہتے تھے لیکن اب لڑ کی والے بھی اسی لا ئن میں لگ چکے ہیں ۔ اس لئے شادیوں کے حوالے سے مسائل ہی مسائل نظر آ تے ہیں۔وہ وقت کہاں سے لا ئیں جب رشتو ں کی بنیاد خا ندا نو ں پر رکھی جا تی تھی ۔بقول شعرائے کرام:
دریا وہ کہاں رہا ہے جو تھا
اس شہر میں اک ہی قصہ گو تھا
٭٭٭
دل کی ہر ایک خرابی کا سبب جا نتے ہیں
پھر بھی ممکن ہے کہ ہم تم سے رعایت کر جا ئیں
٭٭٭
دل کے آ ثار پہ اک شہر بسا کر اس نے
نئے احکام لکھے ،مہر نئی جا ری کی 
آجکل اکثر لڑ کیا ں ملازمت کرنے کو اہمیت دینے لگی ہیں۔والدین بھی ان کی مر ضی کا خیال کرتے ہو ئے مدا خلت نہیں کرتے۔اکثر تو بڑے فخر سے بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک سے با ہر جا نے کی ا جا زت بھی دینے لگے ہیں جبکہ ما ضی میں بیٹی کودوسرے شہر بھی سوچ سمجھ کرہی بھیجا جا تا تھا ۔اس سلسلے میں میڈیا کی وسا طت سے آپ سے گزارش ہے کہ ہماری روایات میں تبدیلی نہیں آسکتی کیو نکہ یہ ہمیشہ مذ ہب کے ستونوںپر استوار ہو تی ہیں ۔ہمارا مذ ہب دینِ اسلام ہے جس کی بنیادیں قر آن و سنت طیبہ اور ا حکامِ الٰہی پر ہیں ،یہ تاقیامت تبدیل نہیں ہو سکتیں ۔ہم نے دوسروںکی تقلید کی تو انجام وہی ہو گا کہ” کوا چلا تھاہنس کی چال، اپنی بھی بھو ل گیا۔“ 
آ ج زندگی صرف ظاہری شکل و صورت اور ما ل و جا ئداد کے گرد گھو منے لگی ہے ۔اسی لئے بیشتر خاندان کا رو با ری نقطہ¿ نظر سے رشتے جو ڑ تے ہیں ۔کبھی کبھی یہ شراکت مہنگی پڑ تی ہے کیو نکہ کا رو بار میں نقصان رشتوں کی ٹو ٹ پھو ٹ یا درا ڑوں کا سبب بنتا ہے ۔لڑ کے بھی جا ن بو جھ کردکھ دینے کے لئے دو سر یو ں کے سا تھ گھر بسا لیتے ہیںاور ما ں باپ کے غلط فیصلو ں کی سزا بے چا ری بیٹیا ں بھگتتی ہیں ۔
 

شیئر: