Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطری حکمراں کی گمراہ کن دستاویزی فلم

عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
بعض لوگوں کے نزدیک حقائق کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت اگر کسی چیز کی ہے تو وہ صرف اس کی کہ وہ لوگوں کو کیا بتا رہے ہیں۔یہی حال دوحہ کا ہے جس نے حقائق کے برعکس ڈاکیومنٹری فلم تیار کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دوحہ اپنے سابق حکمران جو درحقیقت پس پردہ آج بھی حکمرانی کررہے ہیں اپنے باپ کے خلاف کی جانے والی بغاوت اور انقلاب کے بارے میں ڈاکیو منٹری بنا کر رائے عامہ کو گمراہ کرینگے۔مبصرین کی توقع کے برخلاف قطر نے ایسا کیا حالانکہ اس کی تاریخ بیٹے کا باپ پر انقلاب کے واقعہ کے بغیر بھی انتہائی سیاہ ہے۔اس مذموم انقلاب کو ہزاروں ڈاکیومنٹری فلمیں بھی نہیں چمکا سکتیں کہ اس کے چشم دید گواہ آج بھی زندہ ہیں اور حقیقت حال سے اچھی طرح واقف ہیں۔
واقعہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب قطر کے سابق امیر شیخ حمد نے 1995ءمیں اپنے باپ کیخلاف بغاوت کرتے ہوئے حکومت پر قبضہ کرکے پورے خلیجی معاشرے کو ہلادیاتھا۔ ڈاکیو منٹری میں شیخ حمد کی بزبان خود روایت بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ انقلاب کے بعد خطے کے 3ممالک نے اس کے خلاف سازش کرتے ہوئے فوجی مداخلت کی کوشش کی تھی۔ انکا اشارہ 1996ءکی طرف ہے۔ 
اس واقعہ کے 7سال بعدتک قطری حکومت کے پاس سرحدوں کی حفاظت کیلئے کوئی بڑی فوج نہیں تھی۔ حقیقت میں قطر سٹی اسٹیٹ ہے۔ اس وقت اس کی مجموعی آبادی 5لاکھ سے زیادہ نہیںتھی۔ ایک تہائی سے بھی کم قطری شہری تھے۔ سعودی عرب جواس کے مقابلے میں بڑا ملک ہے اس کے لئے مشکل نہیں تھا کہ اس وقت مداخلت کرتے ہوئے بری ، بحری اور فضائی راستوں سے انقلاب کو ناکام بناتے ہوئے باپ کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھادے مگر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے ایسا نہیں کیا۔ وجہ صرف اخلاقیات تھیں جو خلیجی ممالک کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھیں۔ اگر خلیجی ممالک چاہتے تو اس وقت عالمی قوانین کے ذریعے انقلاب کو ناکام بناتے ہوئے دستوری طور پر حکومت باپ کے حوالے کردیتے مگر ایسا نہیں ہوا اور خلیجی ممالک نے خود بھی ایسا کرنا نہیں چاہا۔ خلیجی ممالک کی کوشش تھی کہ باپ اور بیٹے کے درمیان ہونے والا معاملہ مفاہمت سے حل ہوجائے۔
بعدازاں ابو ظبی نے ایک عرصے تک باپ کی میزبانی کی مگر اس وقت بھی اسے اس بات کا پابندکیا کہ وہ ملکی قوانین کا احترام کرتے ہوئے کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لینگے۔ یہی معاملہ ریاض نے بھی کیا جب شیخ خلیفہ، مملکت کے مہمان بنے۔ اس عرصے کے دوران مجھے بھی شیخ خلیفہ سے ملاقات کااتفاق ہوا۔ اس وقت میں کویت پر عراقی قبضے کے حوالے سے ڈاکیو منٹری بنا رہا تھا۔ مجھے اس سلسلے میں شیخ خلیفہ سے ملنا تھا۔ابوظبی حکومت نے ہمیں اس بات کا پابند کیا کہ ہم دونوں باپ اور بیٹے کے نزاع کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کرینگے۔ 
1996ءمیں شیخ حمد کے خلاف کارروائی کرنا خلیجی ممالک کیلئے مشکل نہیںتھا۔ وہ انقلابی حکومت تھی جس نے ملک کے دستوری حکمران کو طاقت کے زور پر ہٹایا تھا۔ خلیجی ممالک اگر چاہتے تو دن کے ایک حصے میں حمد کی حکومت کواکھاڑ پھینکتے او رشیخ خلیفہ کو واپس لاتے ۔ اس وقت قطری شہری خلیجی ممالک کی اس مداخلت کی مخالفت ہرگز نہیں کرتے۔
وجہ یہ ہے کہ شیخ خلیفہ نہ صرف رحمدل حکمران رہے ہیں بلکہ قطری شہری ان سے محبت بھی کرتے تھے۔ انکا بیٹا انکے بالکل برعکس ہے۔ جس نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی انقلاب کی مخالفت کرنے والے 5ہزار شہریوں کو ملک بدر کردیا۔ یہ قبیلہ غفران اور آل مرہ کے افراد تھے۔ آج ٹھنڈے دل سے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1996ءمیں خلیجی ممالک نے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے شیخ حمد سے متعلق خوش گمانی سے کام لیا۔اس وقت قطر میں حکومت کی حمایت کیلئے امریکی اڈہ نہیں تھا۔ نہ ہی قطر کے پاس کوئی بڑی فوج تھی۔سعودی عرب کی سرحد سے دوحہ 94کلو میٹر دور تھا۔ شیخ خلیفہ کی ایما ءپر یہ انقلاب ممکن تھا۔اب لکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
آج شیخ حمد، تاریخ کو توڑ مروڑ کر 1995ءاور 1996ءکے واقعات پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ بھول گئے کہ خلیجی ممالک کے مزاج میں یہ بات نہیں کہ وہ ہمسایہ ممالک کے حکمران خاندانوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔ اب کیا وجہ ہے کہ شیخ حمد نے پرانے قصے دہرانے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ شیخ حمد خلیجی ممالک سے اتنا بغض کیوں رکھتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دینے کیلئے وہ جھوٹ کاسہارا لیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب، امارات، اور بحرین نے اسکے خلاف سازش کی اور سابق حکمران کو طاقت کے زور پر زمام اقتدار دلانے کی کوشش کی۔ کاش ایسا ہی ہوتا تو پورا خطہ بہت سارے مسائل سے بچ گیا ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: