عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
ممالک کے درمیان تعلقات مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سیاست کا ادنیٰ طالب علم بھی اس بنیادی کلیے سے واقف ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات بھی اسی بنیاد پر قائم ہیں۔ مشترکہ مفادات کی وجہ سے یہ تعلقا ت تاریخی کہلائے جاتے ہیں۔ امریکیوں نے سعودی عرب میں 80سال قبل تیل کا انکشاف کیا تھا۔ ان سے پہلے بہت ساری ناکام کوششیں ہوتی رہیں۔ یہ امریکی ہی تھے جنہوں نے سعودی عرب کو تیل کی دولت سے متعارف کرایا تھا۔ گزشتہ صدی کی 30ویں دہائی میں اسٹینڈرڈ آئل کمپنی نے سعودی عرب میں تیل کا انکشاف کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان مستحکم تعلقات کا آغاز ہوا۔ سعودی عرب کی نظر میں امریکہ اس کااسٹراٹیجک شریک ہے۔ اسی نگاہ سے واشنگٹن بھی سعودی عرب کو دیکھتا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شرکاءتمام معاملات کو ہر وقت یکساں نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ بعض معاملات میں اختلاف رائے ہوجاتا ہے۔ یہی اتار چڑھاﺅ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں رہا تاہم مجموعی طور پر یہ تعلقا ت مستحکم ہی رہے۔ سابق امریکی انتظامیہ کے دور میں ان تعلقات میں سرد مہری آگئی جب اوباما انتظامیہ کے نزدیک مشرق وسطیٰ غیر اہم ہوگیا۔ اسکی پالیسیوں میں دیگرخطے زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔
یہ بات کسی طورپر بھی درست نہیں کہ امریکہ اسلحہ کی تجارت کےلئے کھلی منڈی ہے۔ جو چاہے جب چاہے منہ اٹھا کر یہاں آسکتا ہے اور اپنی من پسند چیزیں خرید سکتا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان بن عبد العزیز اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات میں مخالفین نے یہ نکتہ اٹھایا کہ صدر ٹرمپ اسلحہ کے مختلف نقشے دکھا کر دراصل دکاندار کا کردارادا کررہے ہیں۔ تاریخی حقائق سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ 1987ءمیں امریکہ نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا جبکہ سعودی عرب نے اسلحہ خریدنے کیلئے خطیر رقم مختص کی تھی۔ یہی واقعہ بش انتظامیہ کے دور میں 2008ءمیں بھی ہوا۔ اسی طرح اوباما انتظامیہ نے بھی سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان تمام واقعات کے باوجود امریکی اسلحہ خریدنے والوں میں سعودی عرب ہمیشہ سرفہرست رہا ۔ امریکہ متعدد مرتبہ کئی ممالک کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ بعض حالات میں کانگریس اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ بعض اوقات ناقابل قبول شرائط عائد کردیتی ہے۔ پاکستان اور تائیوان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا جب دونوں ممالک امریکہ سے لڑاکا طیارے اور دیگر اسلحہ خریدنے کی کوشش کررہے تھے۔
اوباما انتظامیہ نے نہ صرف سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کردیاتھا بلکہ سعودی عرب کو انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی بھی بند کردی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سعودی عرب کو یمن میں حوثی باغیوں کےخلاف کارروائی کا سامنا تھا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انٹیلی جنس معلومات کے بغیر فضائی لڑائی کس طرح کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلحہ خریدنے کے معاہدوں سے ممالک کے درمیان تعلقات میں استحکام بھی آتا ہے۔ 2ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیادیں مشترکہ مفادات پر ہی رکھی جاتی ہیں۔ ان مفادات کے ضمن میں معیشت اور عسکری تعاون بھی شامل ہیں۔ ولی عہد کا دورہ امریکہ اس لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں سعودی قیادت نئے وژن کو پیش کررہا ہے۔ ہم نئے سعودی عرب کی طرف محو سفر ہیں۔ ایک ایسا سعودی عرب جو معاشرتی اور حکومتی بنیاد پر پہلے سے بالکل مختلف ہے۔ تبدیلی کا یہ منصوبہ امریکہ اور برطانیہ یا کسی اور ملک سے متعلق نہیں بلکہ اسکا تعلق سعودی معاشرے سے ہے جو خود بدل رہا ہے۔ روایتی سعودی عرب ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں سے میل نہیں کھاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عہد کا ہر ملک میں شاندار استقبال ہوا ہے کہ وہ اس تبدیلی کے روح رواں ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ مخالفین امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ مشترکہ مفادا ت کی بناءپر ان ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقا ت مستحکم ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭