زبانِ عجم، شاعرِ مشرق، حکیم الاُمت، مصور پاکستان، علامہ محمد اقبال
شہزاداعظم۔جدہ
آج سے 141برس قبل9نومبر1877ءکی صبح اپنی مہد میں ایک نابغہ¿ روزگار شخصیت کو لے کر طلوع ہوئی تھی جسے والدین نے محمد اقبال کا نام دیاپھر دنیا نے اُنہیں شاعر، فلسفی،علامہ، دوقومی نظریے کے دلدادہ، وحدتِ اسلامی کے پروردہ،زبانِ عجم، شاعرِ مشرق اور حکیم الامت جیسے القاب سے نوازا۔برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کاخواب بھی علامہ اقبال نے ہی دیکھا تھا جسے اُن کی وفات کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شکل میں شرمندہ¿ تعبیر کیا۔اس حوالے سے اقبال کو ”مصورِ پاکستان“ کا خطاب بھی دیا گیا۔
محمد اقبال کیا تھے؟سنتے ہیں کہ وہ شاعر تھے مگر یہ کیسے شاعر کہ جنہوں نے لب و رخسار کی باتیں نہیں کیں، وزن اور بحور کی قید میں جکڑی یہ کیسی شاعری تھی جوزلفوں کی زنجیر سے آزادرہی۔یہ کیسی غزل ہے کہ جسمیں چشمِ غزالاں کاتذکرہ نہیں۔یہ کیسے شاعر کہ یہ امرخود ہی واضح کیا کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے سوزِ زندگی کا دروں
یہ عقدہ عام کرنے کے باوجود اپنی شاعری کو کائنات میں بھرے اس ”رنگ“ سے رنگین ہونے نہیں دیا۔وہ عجب سخن گو تھے کہ انہیں خطاب تو شاعرِ مشرق کا دیا گیا ، مشرق میں بسنے والے ان کے اشعار سن کر داد دیتے رہے مگر ”واہ واہ “ کی صدائیں مغرب سے بھی آتی رہیں اور مغرب کے دلدادگانِ اقبال نے اُن کے کلام کاغیر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا تاکہ وہ اس عظیم شاعر کی شاعری سے محروم رہ کر تمام ترعلوم و آگہی سے بہرہ مند ہونے کے باوجود مشرق کے ہم پلہ ہونے سے قاصر نہ رہ جائیں۔
علامہ اقبال شاعر توتھے مگر یکتائے زمانہ ۔ بعض شعراءکا کلام سن کر دل سے” آہ“ نکلتی ہے، بعض کے اشعار انسان کو” واہ“ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیںمگر اقبال کی شاعری ہر انسان کو ایک ”راہ“دکھاتی ہے جس پر گامزن ہونے والا اپنی ذات کا سراغ لگا لیتا ہے، وہ اپنی خودی کو پا لیتا ہے پھر اس کی سوچ آفاقی ہو جاتی ہے۔ اسے حقائق کا ادراک ہونے لگتا ہے ۔
ایک قدیم قول ہے جو میر و غالب تک محدود ہے کہ:
”میر کا کلام ”آہ“ ہے تو غالب کا کلام ”واہ“
اس قول میں اقبال کو شامل کر کے یوں کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ:
”میر کا کلام ”آہ“ ہے، غالب کا کلام ”واہ تو اقبال کا کلام ”راہ“
ہم سنتے ہیں کہ محمد اقبال ایک فلسفی تھے مگر ہم نے دیکھا کہ فلسفی تو وہ ہوتا ہے جو فلسفہ” بگھارتا“ہے۔وہ ایسی ایسی باتیں کرتا ہے جو عام انسانوں کی سوچ سے یا تو بالکل ہی ہم آہنگ نہیں ہو پاتیں یا بمشکل ہی سمجھ میں آتی ہیںپھر اقبال کیسے فلسفی تھے کہ ان کی باتیںنہ صرف ہم زبانوںکو مسحور کرگئیں بلکہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ساکنانِ کرہ¿ ارض کوبھی ان کے کلام نے مبہوت کر دیا۔
علامہ اقبال اور دیگر فلسفیوں میں فرق یہ ہے کہ فلسفیوں کے عقدے ذہن انسانی کی گتھیوں کو اُلجھا دیتے ہیں، انہیں مخمصے کا شکار کر دیتے ہیں،اُن کی سوچ کو تتر بتر کر دیتے ہیں۔انجامِ کار وہ ”گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے“ مگر علامہ اقبال کا بیان کردہ فلسفہ ہر ذی شعورکو آگہی فراہم کرتا ہے، قلب کو بینا کرتا ہے اور ذہنی سوچ کو مرکوز کر دیتا ہے ۔ذرا غور فرمائیے:
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اُس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزمِ شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ¿ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
محمد اقبال کو حکیم الامت بھی کہا گیامگر وہ ایسے حکیم نہیں تھے جوجڑی بوٹیوں کی پڑیا تھما کر نسخے پر تحریر کر دیتے کہ:
”جوشانیدہ، صاف نمودہ، قندِسفید انداختہ، بنوشند“
اقبال تو ایسے حکیم تھے جو مسلمانوں کے لئے اپنی حکمت کے بل پر نسخے تجویز کرتے تھے۔اُن کے نسخوں میں تشخیص و تجویزیوں تحریر ہوتی تھی کہ:
غبارآلودہ¿ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تُو اے مرغِ حرم !اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
کہیں نسخہ یوں تجویز کیا کہ:
خرد کے پاس جنوں کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
علامہ اقبال نے مسلمانانِ عالم کے لئے عموماً اور مسلمانانِ ہند کے لئے خصوصاً ایک معلم کا کردار بھی ادا کیا۔ انہوں نے ایسے ایسے اسباق نظم کئے جونام کے مسلمان کو کام کا مسلمان بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ذراغور فرمائیے:
حقیقتِ ازلی ہے رقابتِ اقوام
نگاہِ پیرِ فلک میں نہ میں عزیز نہ تُو
خودی میں ڈوب، زمانے سے نااُمید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے در پردہ اہتمامِ رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں ”لَاشَرِیکَ لہ¾“
کہیں وہ حقائق کا بیان یوں کرتے ہیں کہ:
تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تُو بدل جائے
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
علامہ اقبال انسانوںپر ڈھائے جانے والے ظلم سے دل گرفتہ ہوجاتے تھے ،اُن کا شعر دیکھئے کہ:
ابھی تک آدمی صیدِزبونِ شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے
اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرنے والوں نے کہا ہے کہ بحیثیت شاعر، ابتدائی دور میں اقبال کسی حد تک ”ولیم ورڈزورتھ“ سے متاثر نظر آتے تھے مگر جب انہوں نے قرآنی احکامات و تعلیماتِ مبارکہ کی جانب توجہ مرکوز کی توان کی سوچ میں انقلاب بپا ہوگیا۔پہلے وہ سوچتے تھے کہ زندگی میں کیا ہے؟اب انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ ”کیا ہونا چاہئے؟“
اقبال زندگی اور انسان کی شاعری کرتے تھے۔ فطرت اور کائنات سے انہیں رغبت محض اس لئے تھی کہ یہ وہ ماحول فراہم کرتی ہیں جس میں زندگی پروان چڑھتی ہے اور انسان ارتقائی مراحل طے کرتا ہے جو اسے تکمیلِ ذات کی منزل تک لے جاتے ہیں۔انہیں یقین تھا کہ کائنات ساکت نہیں بلکہ یہ ہمیشہ رواں دواں رہتی ہے۔ہر لمحے اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور یہ وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ یہ کاملیت کی جانب محو سفر ہونے کے ساتھ ساتھ بلا شبہ مزید پیچیدہ اورناقابلِ فہم ہوتی جا رہی ہے۔
اقبال، لفظوں میں تصویر کشی کے فن میں شاق تھے۔ان کی یہ تصویر کشی نہ صرف حقیقی اور تفصیلی ہوتی تھی بلکہ تازہ اور زندگی کی مانند محسوس ہوتی تھی۔منظر کشی کے حوالے سے اقبال کے ہم عصروں میں ان کا ہمسر کوئی نہیں تھا۔اُس وقت جو شعرائ” لفظوں سے تصویر“بناتے تھے وہ مبالغہ آرائی کرتے تھے جس سے مصنوعی پن عیاں ہوتا تھا۔ایسا ہی انگریز شعراءبھی کرتے تھے مگر اقبال کی شاعری اس حوالے سے بے مثل ہوتی تھی۔مثال کے طور پراقبال نے طلوعِ صبح کا منظر بیان کیا اوربتایا کہ سورج کی کرن کس انداز میں تاریک شب کے پردوں کو اٹھا دیتی ہے اور شب کے تمام رازوں کو آشکار کر دیتی ہے، اشعار ملاحظہ ہوں:
صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی
آسماں پر اک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی
سرمہ بن کر چشمِ انساں میں اتر جا¶ں گی میں
رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا دکھلا¶ں گی میں
تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے؟
سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے؟
اس تصویر کشی میں اقبال نے قاری کے لئے سبق بھی بیان کر دیا ہے کہ انسان میںسرگرم زندگی گزارنے کی خواہش اسے عزم اور ہمت عطا کر دیتی ہے۔اقبال جب منظر کشی کرتے ہیں تو تشبیہات و استعارات کا ایسا استعما ل کرتے ہیں کہ پڑھنے والا بے خود ہو کر رہ جاتا ہے۔نمونہ پیشِ خدمت:
مہرِ روشن چھپ گیا،اٹھی نقابِ روئے شام
شانہ¿ بستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام
٭٭٭
طشتِ گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خونِ ناب
نشترِ قدرت نے کیا کھولی ہے فصدِ آفتاب
٭٭٭
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ¿ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکاگمنام تھا وطن میں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
انسان کی مجبوری و بے کسی کو صبح کے ستارے سے تشبیہ دے کر کس منفرد انداز میں اقبال نے بیان کیا، دیکھئے:
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی
ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے
اماں مجھی کو تہِ دامنِ سحر نہ ملی
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفس حباب کا، تابندگی شرارے کی
علامہ اقبال کے آباءکشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ چلے آئے تھے۔ان کے والد ماجد شیخ نور محمد خیاط تھے۔مذہب سے ا نہیں خاص لگا¶ تھا۔ انکی والدہ امام بی بی نہایت رحمدل خاتون تھیں جو غریبوں کی مدد کیا کرتی تھیں اور ہمسایوں کے مسائل و مشکلات حل کرنے میں مگن رہتی تھیں۔ان کا انتقال1914ءمیں 9نومبرکو ہی ہوا۔ اقبال اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ماں کی جدائی کے بعد انہوں نے اشعار لکھے جن میں کہا گیا تھا کہ اب میرے خط نہ پہنچنے پر پریشان کون ہوگا؟اب مجھے نصف شب کی دعا¶ ں میں کون یاد رکھے گا؟
اقبال نے اسکاچ مشن کالج ،سیالکوٹ سے 1893ءمیں میٹرک پاس کیا۔1895ءمیں مرے کالج ، سیالکوٹ سے ایف اے کیا۔گورنمٹ کالج لاہور سے 1897ءمیںفلاسفی، انگریزی ادب اور عربی میں گریجویشن کی اور عربی کلاس میں سب سے زیادہ نمبر لینے پر انہیں ”خان بدرالدین ایف ایس جلال الدین “ میڈل دیا گیا۔اسی کالج سے انہوں نے 1899ءمیں ایم اے کی سند حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اول آئے۔اعلیٰ تعلیم کے لئے بعدازاں وہ برطانیہ چلے گئے تھے۔
علامہ اقبال نے 3شادیاں کیں۔ پہلی شادی 1885ءمیں کریم بی بی سے اس وقت ہوئی جب وہ بی اے کے طالب علم تھے۔ان سے ایک بیٹی معراج بیگم اور بیٹا آفتاب اقبال ہوئے۔دوسری شادی سردار بیگم سے ہوئی جو جاوید اقبال کی والدہ تھیںاور تیسری شادی 1914ءمیں مختار بیگم سے ہوئی۔