Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میں ہوں منجدھار میں، کشتی بھنور میں

ڈاکٹر شفیق ندوی ۔ ریاض
وہ یاد آیا ، وہی منظر نظر میں
ہوئی ہے روشنی پھر میرے گھر میں
یہ دل انگڑائیاں لینے لگا پھر
جنوں نے جست لی پھر میرے سر میں
تمہیں اب بھولتا جاتا ہوں میں بھی
نئے منظر نظر آئے سفر میں
سمجھتا تھاکبھی خود کو شناور
میں ہوں منجدھار میں، کشتی بھنور میں
صدف میں ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا تم
چمکتے کچھ گہر، اس چشم تر میں
اگر ہو حوصلہ ذوق سفر کا
مسافت خود سمٹ آتی ہے گھر میں
محبت،پیار، الفت، درد سر اک
مگر اک لطف ہے،اس درد سر میں
ملا قاتیں سمندر کے کنارے
کوئی کب بھول پاتا عمر بھر میں
 

شیئر: