Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرے میں تبدیلی نئی اختراع نہیں

مشاری الذایدی۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب میں جو معاشرتی تبدیلیاں ہورہی ہیں، ان کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے ایک استہزائیہ سوال بہت زیادہ عام ہوتا جارہا ہے کہ آخر ان زبردست معاشرتی تبدیلیوں کےلئے جن فتوﺅں اور دینی وفقہی نصوص کا سہارا لیا جارہا ہے اور جنہیں میڈیا کے ذریعہ عام کیا جارہا ہے، وہ لچک دار اور رواداری پر مبنی فقہی آراءپہلے کہاں چھپے ہوئے تھے؟آخر اِن لچکدار اور رواداری پر مبنی فقہی آراءکو یکمشت منظر عام پراِسوقت کیوں لایا جارہا ہے؟ پوچھنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ کیا یہ اسلام اور اسکی تعلیمات کےخلاف کوئی سازش ہے؟
زیادہ کھل کر مثالوں سے بات سمجھائیں۔معاشرے میں بحث چل رہی ہے اور بعض مرتبہ بحث کرنے والوں میں جدال تک کی نوبت آجاتی ہے جب معاملہ خواتین کے متعلق ہوتاہے، فنون لطیفہ یا تفریح یا پھر مخالف فکر سے متعلق ہوتاہے۔ وہ جو ہم سے فکری طورپر، مذہبی یا مسلکی یا خواہ دینی طور پر مختلف ہے ،اس کے بارے میں شدت اختیار کرلیتے تھے۔ اب معاملہ نہایت رواداری اور لچکدار کیوں ہوگیا ہے۔ یہ سوچ رکھنے والے لوگ یا ہمارے بارے میں اس طرح کا رویہ رکھنے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے کبھی بھی فقہ کی کتابوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کی ورنہ ہمارے فقہی ذخیرے میں ہمارے جید علماءکی آراءصدیوں سے درج ہیں ۔ وہ آراءجن کے بارے میں لاعلم لوگ نہیں جانتے یا جنہیں اگر ہم اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں بدعتی کہا جارہا ہے۔
ولی عہد ووزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے متعدد انٹرویوز میں واضح کیا ہے کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام اور اس کی تعلیمات کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو اپنے اقتدار کے دوام کےلئے استعمال کرے ۔ اس کی مثال اخوان المسلمون کی جماعت ہے یا پھر خمینی کی ولایت فقیہ کا نظریہ ہے یا پھر سروری جماعت ہے جو دراصل اخوان کے بطن سے ہی پیدا ہوئی۔ 
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام کسی جماعت یا قوم یا ریاست کا تابع نہیں، نہ ہی اس کا ٹھیکہ کسی نے لے رکھا ہے۔ان جماعتوں نے خواتین سے متعلق جو طرز ِفکر عام کر رکھی ہے، وہ اسلامی معاشرے کی صحیح عکاسی نہیں کر رہی۔ اسلام نے خاتون سے پردے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے اسکے لباس کے طرز یا عبایہ کے رنگ وڈھنگ یا ستر چھپانے کےلئے جزئیات کا ذکر نہیں کیا۔ اسلام نے صرف یہ کہا ہے کہ خاتون کو چاہئے کہ وہ اپنا ستر چھپائے۔کیسے چھپائے، یاکونسا رنگ اختیار کرے، عبایہ کس طرز کا ہو، وہ کس طرح سیا جائے، یہ تمام جزئیات ہر معاشرے کےلئے مختلف ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لباس کسی بھی قوم کی ثقافت کا حصہ ہے۔ اسلامی ثقافت میں کوئی خاص لباس نہیں ۔ اسلام نے دنیا پر حکمرانی کی اور اپنی تہذیب وثقافت سے بھی متعارف کروایا مگر کسی بھی قوم پر کسی خاص قسم کے لباس کو لازم نہیں کیا۔ ہم دیکھیںکہ دیگر ممالک میں مسلمان خواتین کیا پہنتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماریطانیہ یا سوڈان کی خواتین کا لباس ہے، اس کا تقابل شیشیانی، ایرانی یا کردی یا پاکستانی مسلمان خواتین کے لباس سے تقابل کریں۔ ہر ایک علاقہ کی خواتین کے لباس میں مقامی تہذیب ، عادات اور روایات کا غلبہ ہوگا مگر سب میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ سب میں ستر چھپانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ رنگ مختلف ہوں گے، شکلیں اور ڈیزائن اور پہننے کا طرز بھی مختلف ہوگا۔ صرف ایک بات کا اہتمام کریں کہ لباس کسی بھی شکل اور صورت کا ہو وہ ستر چھپانے کا والا ہو۔ اسی طرح عصری لباس کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔ اگر وہ ستر چھپارہا ہے تو قابل قبول ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ نئی بات نہیں بلکہ ہمارے فقہی ذخیرے سے ہی ماخوذ ہے جو صدیوں پہلے لکھا جاچکا ہے۔ اگر معاشرے میں کوئی تبدیلی ہورہی ہے تو وہ محض بدعت یا نئی اختراع نہیں بلکہ پہلے سے موجود ہے مگر کتابوں میں بند رہی ہے۔ ہاں البتہ فرق صرف یہ ہے کہ فقہ کے ذخیرے میں سے کچھ دروازے کھل گئے ہیں جن سے ہوا کے تازہ جھونکے آنے لگے ہیں ۔ پہلے ہمارے ہاں یہ دروازے بند تھے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: