وزیراعظم ، چیف جسٹس ملاقات، وضاحتیں کافی ہیں ؟
ہر پاکستانی اور شاید بیرونی دنیا کو بھی یہ سن کر کہ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے علیحدگی میں 2 گھنٹے ان کے چیمبرزمیں ملاقات کی،یہ بہت ہی عجیب بات تھی۔کہنے کو تو یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا۔پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کے تحت کام کرنے والے وزیر اعظم شوکت عزیز بھی اپنے وقتوں میں چیف جسٹس سے ملاقاتیں کرچکے تھے لیکن ان کی ملاقاتوں کو بھی شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا گیا تھا۔حزب اختلاف کی جماعتوں سے اسکے خلاف آواز سنی گئی ۔پہلے تو سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سابق سربراہ اعترازاحسن اور فوراً بعد ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سیّد خورشید شاہ نے اس بات پر سخت اعتراض کیا۔ اعتراز احسن کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو ملاقات سے انکار کردینا چاہیے تھا۔گو کہ یہ وضاحت سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کر دی گئی کہ ملاقات وزیر اعظم کی درخواست پر ہوئی جو کہ اٹارنی جنرل کے ذریعے پہنچائی گئی تھی اور وہ بھی چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد حامی بھری لیکن پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے اعتراض کرتے ہوئے زور دیا کہ ایسی ملاقاتیں بہت اہم ہوتی ہیں اور معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں اس لیے اس کا ایجنڈا پہلے سے طے ہونا چاہیے تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ دونوں کی طویل ملاقات کے دوران سپریم کورٹ کے رجسٹرار موجود تھے تاکہ گفت و شنیدکی روداد رقم کی جاسکے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ملاقات جو کہ پاکستانی وقت کے مطابق شام 7بجے سے رات 9بجے تک جاری رہی، کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے تحریر شدہ اعلامیہ جاری کیا گیا تاکہ عوام الناس میں ان کی شخصیت پر کوئی آنچ نہ آنے پائے لیکن جہاں دو ایک باتوں کی وضاحت کر دی گئی، جیسے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، وزیر اعظم پاکستان نے چیف جسٹس کی طرف سے اُن کے اٹھائے ہوئے تمام اقدامات کی نہ صرف تعریف کی بلکہ انہیں عوامی مسائل جیسے پینے کے صاف پانی کی کمی کی شکایت، اسپتالوں میں مریضوں کے مسائل حل کرنے کی بھرپور یقین دہانی کرائی ۔ قانونی اصلاحات پارلیمنٹ سے پاس کروانے کے لیے وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو حمایت کا یقین دلایا۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ ملاقات ایسے وقت کیوں ہوئی جب سپریم کورٹ نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے مقدمات سے نمٹ رہی ہے۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے خلا ف بھی قومی احتساب بیورو میں تفتیش ہورہی ہے۔ دوسری طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وزیر خزانہ اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ شکوک و شبہات تو جنم لیں گے، گو کہ چیف جسٹس نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ عدالتیں بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داریاں نبھا تی رہیں گی اور وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا کہ نواز شریف یا پانامہ لیکس کیسز کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن پھر بھی کیا یہ سب وضاحتیں کافی ہیں؟
کئی ایک ٹیلی وژن مبصرین نے کھل کر اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ کہیں کوئی ڈیل تو نہیں ہورہی۔ آخر نواز شریف نے اپنارویہ بدلنا شروع کردیا، اب انہیں اپنی ماضی کی کئی غلطیاں بھی یاد آرہی ہیں۔ ان کا حالیہ بیان کہ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر حسین حقانی کے کیس میں انہیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا، لیکن نواز شریف نے ایک غلطی تو نہیں کی، سیکڑوں کی تعداد میں غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ (ن) لیگ کے قومی اسمبلی کے ایک ممبر نے ٹی وی پر صاف طور پر کہہ دیا کہ ایسی غلطی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔
بات دراصل یہ ہے کہ حکومت پریشان ہے کہ کسی طرح آئین میں بنیادی تبدیلیاں کر دی جائیں تاکہ آئندہ کی طرح تفتیش سے کسی وزیراعظم ، وزراء یا اعلیٰ منصب پر مقرر ہونے والے لوگوں کا تحفظ کیا جاسکے لیکن آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔وہ شاید کسی پارٹی کے پاس نئے انتخابات کے بعد بھی نہ ہوپائے بلکہ معروف مبصر حامد میر کے مطابق تو اب hung پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ انہوں نے یہ بات کھل کر کہی کہ (ن) لیگ کے 30/35 قومی اسمبلی کے حاضر ممبران اب آزاد امید وار کی حیثیت سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے نواز شریف ، مریم اور داماد صفدر کو جیل ہوجائیگی۔
خاقان عباسی تو خود کوبھی وزیر اعظم نہیںکہتے تو پھر کس حیثیت میں چیف جسٹس سے ملنے گئے تھے۔ انکی اس حرکت سے (ن) لیگ کو بہت نقصان پہنچے گا۔ویسے بھی پشاور میں ایک نیا سیاسی فرنٹ قائم ہوگیا ہے اور اسی طرح لاہور میں بھی بایاں بازو کے لوگوں نے سیاسی فرنٹ کھولنے کا اعلان کردیا ہے، پھر جو کچھ پچھلے چند مہینوں میں پسماندہ صوبے بلوچستان میں جہاں نواز شریف کی پارٹی سے لوگ منحرف ہوگئے اور اپنا ایک نیا لیڈر چن لیا جس نے سینیٹ کا چیئر مین بلوچستان سے منتخب کروالیا، تو ایسے حالا ت میں بلوچستان اپنی بات منوانے کے لیے مضطرب نظر آتاہے۔لوگوں نے اس بات کی سختی سے مذمت کی ہے کہ وزیر اعظم بھی سینیٹ چیئر مین کے خلاف اُلٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انہوں نے سینیٹ چیئر مین صادق سنجرانی سے ملاقات سے بھی انکار کر دیا ۔ یہ پارلیمانی روایت کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جس پر وزیر اعظم کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
پاکستانی سیاست میں اس وقت عجیب افرا تفری ہے، کوئی بھی پیشن گوئی وثوق سے نہیں کی جاسکتی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کیئر ٹیکر پرائم منسٹر اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے لیے گفتگو کا آغا زہوگیا ہے ، لیکن بات ابھی کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھی۔ امید تو یہ ہے کہ 31مئی تک موجود ہ اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی اور پھر 60 یا 90 دن کے اندر نئے انتخابات ہو جائیں گے لیکن کیا شریف خاندان ایک رہے گا؟مریم نواز کا پنجاب کا صدر بننے پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے۔نامزد وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑے بھائی کی بہت سی باتیں نظر انداز کر دی ہیں، وہ عدالتوں کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتے تو پھر کیا خاندان میں دراڑ پڑیگی؟کیا شہباز شریف روٹھے ہوئے (ن) لیگی سابق وزیر وپرانے ساتھی چوہدری نثار کو اپنی طرف مائل کرپائیں گے؟ چوہدری نثار نے تو صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے سے جونیئر کی قیادت میں کام کرنے کو تیار نہیں۔
اس سارے پس منظر میں یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے ملک کا سیاسی نقشہ تبدیلی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔جب سیاسی منظر نامہ اس پوری طرح گہنایا ہوا ہو تو پھر وزیر اعظم- چیف جسٹس ملاقات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ چیف جسٹس کے آفس سے جاری کئے جانے والے اعلامیہ میں یہ بات کھل کر کہہ دینی چاہئے تھی کہ اس ملاقات سے جو پچھلے کئی مہینوں سے وزیر اعظم اور وزراء کے خلاف عدالتوں میں زیر بحث کیس ہیں ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔