اس دورکے ڈراموں میں”شاعرہ“ہوتی تھی نہ اعضاءکی شاعری
ابو غانیہ۔جدہ
عام طور پر انسانوں کی دو ہی اصناف معروف ہیں ان میں ایک کو مرد کہا جاتا ہے اور دوسری کو عورت۔اس کے علاوہ ایک اور قسم کے انسان بھی خال خال پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے ہم ایک لطیفہ بیان کرنے پر ہی اکتفاءکرینگے۔
ہماری نوخیزی کا دور تھا اور” زندہ دلان“ کا شہر۔ وہاں ہمیں ایک اسٹیج ڈرامہ سننے کا موقع ملا جو ہماری اب تک کی زندگی کا پہلا اور آخری اسٹیج ڈرامہ تھا۔آپ حیران ضرور ہونگے کہ اسٹیج ڈرامہ دیکھا جاتا ہے، سنا کب سے جانے لگا تو اس کے جواب میں ذرا سی تفصیل سن لیجئے، پھر آپ بھی قائل ہو جائیں گے کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کہا:۔
اس دورکے اسٹیج ڈراموں میں نہ تو کوئی دھمال ہوتا تھا اور نہ ہی کسی”شاعرہ“کی جانب سے اعضاءکی شاعری کا کوئی بندوبست ہوتاتھا۔ وہ دور اس قدر شریفانہ تھا کہ ڈرامے کے لئے ہیروئن ملنا ”خوشبختی“سمجھا جاتا تھا۔وہ ہیروئن بھی ایسی ہوتی تھی جو گھریلو اور معاشی پریشانیوں سے تنگ آ کر باعث مجبوری ، عارضی اور مختصر مدت کے لئے اداکاری جیسا کام کرتی تھی۔ وہ لالی وڈ والیوں کی طرح باقاعدہ اداکارہ نہیں ہوتی تھی۔وہ ہیروئن کی جگہ کام ضرور کرتی تھی مگر اس میں اسٹیج کی چکاچوند روشنیوں کے باوجود ہیروئن والی کوئی بات نظر نہیں آتی تھی۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ انتہائی شریفانہ دور تھا، روشن خیالی کا وجود تو دور کی بات، یہ اصطلاح بھی اس دور کی لغت میں موجود نہیں تھی۔اسی لئے ڈرامے میں ہیروئن کہلانے والی صنف ایک تو نزاکت سے عاری ہوتی تھی اوردوسری بات یہ کہ وہ چہرے پر لالیاں بھی نہیں ملتی تھی بلکہ دوپٹے کا پلو لٹکا کر منہ چھپائے رکھتی تھی۔ اسی لئے اس دور میں اسٹیج ڈرامے کے ساتھ،”دیکھنے“ کا لفظ مستعمل نہیں تھا بلکہ اس کے لئے ”ڈرامہ سننے “ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔
ہم اس ڈرامے کو سن رہے تھے کہ اس کے ایک اداکار نے ہمیں اسٹیج کیجانب دیکھنے پر مجبور کردیا۔ اس نے ہال میں موجود افراد کی ذہانت کا امتحان لینے کے لئے عجیب و غریب قسم کا سوال دے مارا۔ اس نے کہا کہ حاضرین ، یہ بتائیے کہ وہ کون سی چیز ہے جس کی قدر کی جاتی تھی تب، اور جس کی قدر کی جاتی ہے اب، اور جس کی قدر ہوتی ہے اب نہ جب؟یہ سن کر حاضرین پر سکتہ طاری ہوگیا۔کسی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔اس نے سوال پھر دہرایا مگر جواب ندارد ہی رہا۔جب حاضرین کا تجسس بڑھا اور انہوں نے جواب معلوم کرنے کے لئے شور مچانا شروع کیا تو اس اداکار نے کہا کہ حاضرین آپ کے پرزور اصرار پر سوال کا جواب پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے چلا کر کہا ، آ جاﺅ بوا، یہ سن کر چند لمحوں کے توقف سے ایک ضعیف خاتون لاٹھی ٹیکتی ہوئی اسٹیج پر نمودار ہوئی۔اس کے استقبال کے انداز میں اداکار نے کہا، دیکھئے حاضرین، ان کی قدر تھی جب۔۔۔اس کے بعد اس نے چلا کر ایک اور آواز لگائی کہ آجاﺅ جی، اتنے میں ایک خاتون پردے کی اوٹ سے نکل کر اسٹیج پر نمودار ہوئی ۔ اداکاار نے کہا کہ ان کی قدر ہے ، اب۔۔۔۔اس کے بعد اسی اداکار نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، تم بھی آ جاﺅ، یہ کہتے ہی ایک ”دوپایہ“ نمودار ہوا اور اس نے اداکار کے کاندھے پر ایک چپت ٹکانے کے ساتھ ہی دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانا شروع کر دیں اور ہال میں یو آواز گونجی کہ”کم بخت، تیرے پاس تمیز نام کی کوئی چیز نہیں، کس بے ڈھنگے انداز میں ”تم بھی آ جاﺅ“ کہہ کر پکار رہا ہے۔ کچھ حیا کر۔اس کی آمد کے بعد اداکار نے اس کی طرف اشارہ کر کے کہاکہ اس کی قدر جب تھی ، نہ اب ہے۔
یہ بے چارے وہ لوگ ہیں جن کی قدر کسی دور میں واقعی نہیں کی گئی۔ خواتین ہیں وہ مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہیں۔ مرد ہیں وہ بھی خواتین کو اپنے شانہ بشانہ چلنے کی اجازت دیئے جارہے ہیںمگر وہ لوگ جن کی قدر جب تھی نہ اب ہے، ان کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے نہ تو خواتین تیار ہیں اور نے ہی حضرات۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے وطن پاکستان کی خواتین ، مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔دوسری جانب اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ مردوں نے خواتین کی ترقی کی راہ میں ”دامے ، درمے، قدمے،سخنے“ ہر طور اور ہر شکل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی حتی المقدور سعی کی ہے جو سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔مردوں کی جانب سے خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لا تعداد واقعات سننے میں آئے ہیں مگر ایک واقعے کے تو ہم بذات خود”چشم دید گواہ“ ہیں۔
آج سے 15،20برس قبل ہمارے وطن عزیز میں پولیس تھانوں کی” بد قسمتی“دور کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے سے قبل بھی ”مردوں کے شانہ بشانہ “خدمات انجام دینے والی خواتین ہمارے ہاں تھانوں میں موجود ہوتی تھیں۔ یہ خواتین ایسی ہوتی تھیں جنہوں نے پولیس میں رہ کر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منووا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ملزم، مرد پولیس اہلکاروں کو تنگ کر رہا ہو تو ملزم کو اس خاتون اہلکار کے سامنے پیش کر دیا جاتا تھا جسے دیکھ کر ملزم ”دھاڑیں “مارمار کر رونے لگتا تھااور وہاں موجود مرد پولیس والوں کے گلے لگ کر ان سے بھیک مانگتا تھا کہ مجھے اس زنانہ پولیس سے بچا لو، تم جو الزام دھرو گے میں اس کا اعتراف کر لوں گا مگر مجھے یہاں سے لے چلو۔
انقلابی فیصلے کے تحت پولیس تھانوں میں ایسی تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی کہ ملزم وہاں نہ تو ڈریں اور نہ ہی رونا پیٹنا مچائیں۔اس لئے پڑھی لکھی لڑکیوں کو پولیس میں بھرتی کیا جانے لگا۔ انہیں اعلیٰ عہدے بھی دیئے گئے۔پولیس کی وردی میں ملبوس نو عمر خواتین مرد اہلکاروں کے نہ صرف شانہ بشانہ کام کرنے لگیں بلکہ بہت سی خواتین جو پولیس میں افسر کے عہدے پر فائزتھیں، مرد اہلکار ان کے ماتحت تھے۔ اس طرح ہمارے معاشرے کی خواتین کے ذہنوں سے عدم مساوات کا خیال مرد اہلکاروں کے اذہان میں منتقل ہونے لگا۔ مرد بھلا عورت کے ماتحت رہ کر کس طرح زندگی گزارتے ۔ان مرد پولیس والوں نے اس صورتحال کا بھی توڑ نکال لیا اور آخر کار کتنی ہی پولیس افسرلڑکیوں کی شادیاں اپنے ماتحت پولیس والوں سے ہوگئیں۔اس طرح تھانے میں اگر وہ بیوی کے ماتحت ہوتے تو گھر میں وہ بیوی پر حکم چلا کر ساری کسر نکال لیتے۔
بات ہو رہی تھی کہ ایک واقعے کے عینی شاہد ہم خود تھے۔ ہوا یوں کہ لاہور کی ایک شاہراہ پر پولیس افسر خاتون ڈیوٹی دے رہی تھی۔اتنے میں ایک ٹرک والے نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے” بظاہر“اشارہ توڑنے کی کوشش کی۔ اس پولیس افسر نے ٹرک کو روک لیا اور ڈرائیور سے کہا کہ اپنے کاغذات لے کر آﺅ۔ ٹرک ڈرائیور 6.5فٹ لمبا تھا ۔ ڈیل ڈول سے وہ کسی اکھاڑے کا پہلوان لگ رہا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ اس نے ڈاکوﺅ ں جیسی خطرناک مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ اسے پولیس افسر خاتون نے کاغذات لانے کے لئے کہا تو ایسا لگا جیسے اس کے من کی مراد پوری ہو گئی۔وہ اپنا لائسنس اور ٹرک کے کاغذات لے کر قلانچیں مارتا ہوا خاتون افسر کے پاس پہنچا اور کاغذات اس کو تھما کر خاموش کھڑا اپنی مونچھوں کو تاﺅ دیتا رہا۔ خاتون پولیس افسر نے اس کے کاغذات دیکھ کر کہا کہ چلے جاﺅ اور آئندہ اشارہ توڑنے کی کوشش کبھی نہ کرنا۔یہ ہدایت سننے کے باوجود وہ ٹرک ڈرائیور ٹس سے مس نہ ہوا اور دونوں کلائیاں اس افسر کے سامنے کر کے کہنے لگا، ”سوہننیو، میں مجرم آں، مینوں ہتھکڑی پاﺅتے تھانے لے کے جاﺅ۔ میں اینج نئیں جانا“۔ افسر بولی، یہ کیا بدتمیزی ہے۔ تم سے کہا نہ کہ جاﺅیہاں سے۔مگر وہ ڈرائیور یہی کہتا رہا کہ”مینوں ہتھکڑی پاﺅ“۔
جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو اس خاتون نے اپنے ماتحت پولیس والے کو بلایا کہ اس ڈرائیور سے کہو کہ ٹرک لے کر یہاں سے چلتا بنے۔جیسے ہی پولیس اہلکار نے اس ڈرائیور کا بازو پکڑ ا اس نے غرا کر کہا کہ”میں تیرے منہ تے چماٹ ماراں گا، چل دفع ہو ایتھوں“۔ اس کی غراہٹ دیکھ کر پولیس والے نے اپنی راہ لی اور اس نے پھر خاتون افسر سے چلا چلا کر”التجا“ کرنا شروع کر دی، ”سوہنیو، مینوں ہتھکڑی پاﺅ“۔جب خاتون افسر نے دیکھا کہ اس ”ملزم“ سے جان چھڑانا ممکن نہیں تو وہ اپنی موبائل وین میں جا کر بیٹھی اور ڈرائیور سے کہا کہ یہاں سے گاڑی تیزی سے نکال لو۔ موبائل وین چلی گئی اور ٹرک ڈرائیور اس کے سائلنسر سے نکلنے والے دھوئیں کے مرغولے دور تک دیکھتا رہا۔
اس میں شک نہیں کہ پولیس میں پڑھی لکھی خواتین کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کسی انقلابی اقدام سے کم نہیں تھا مگر اس فیصلے کے اثرات” خوفناک حد تک مثبت“ برآمد ہوئے اور انجام یہ ہوا کہ ملزمان سے کہا جاتا کہ آپ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا لہذا آپ خوشی خوشی گھر چلے جائیے مگر ہر ملزم رونے دھونے لگتا اور ضد کرتا کہ مجھے کسی نہ کسی الزام کے تحت حوالات میں بند کر دو۔ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔اگر مجھے آزاد کر دیا گیا تو میں مر جاﺅں گا۔اس صورتحال کا کوئی علاج ممکن نہیں تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں عورت ، مرد کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتی تھی کیونکہ مرد ملزم اور عورت، قانون کی محافظ۔
اس چشم دید واقعے اور تھانوں کی” بدلی قسمت“ کے دور میں ہی ہم بیرون ملک چلے آئے تھے۔ اب وہاں کیا عالم ہے، اس کا جواب تو ہم وطن عزیز کا دورہ کرنے کے بعد ہی دے سکیں گے۔