عنبرین فیض احمد۔ ینبع
جب ہم اشرف المخلوقات کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف مرد بلکہ عورت بھی اسی مقام و مرتبہ کے قابل ہے جو اشرف مخلوق ہونے کے ناتے انسان کو حاصل ہے کیونکہ عورت بھی تو انسان ہے ۔وہ بھی معزر ہے، مقام و مرتبہ رکھتی ہے بلکہ اس کی عزت کا خیال بھی رکھا جاتا ہے ۔ دور جاہلیت میں عورتوں کا مقام و وقار کچھ نہیں تھا ۔اسے پاﺅں کی جوتی کا درجہ دیا جاتا تھا۔
آج کے دور میں یورپ ، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں دیکھیں تو عورت کو مردکی طرح معاشرے میں ا ہمیت دی جاتی ہے ۔ قیام پاکستان کے وقت بھی ہمارے قائد محمد علی جناح نے کہا تھا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی جب تک اس قوم کی عورتیں ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ نہیں چلتیں۔ اسی لئے آج پاکستان کے ہر شعبے میں خواتین ،تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عورت ہر روپ میں اس کائنات کے وقار ، خوبصورتی اور رونق کی ضامن ہے جس سے ایک معاشرے کی تکمیل ہوتی نظر آئی ہے جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا کہ:
” وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“
عورت اس ہستی کا نام ہے جس کے بغیراس دنیا کا وجود ہی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ماں، بہن، بیٹی ، بیوی ، بہوجس روپ میں بھی ہوتی ہے ،اپنا تن ،من ، دھن سب کچھ اپنے گھر والوں پرقربان کر دیتی ہے مگر پھر بھی ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس محبت کے پیکر کو ہر دور میں دنیا نے اپنے پاﺅں تلے روند ا۔ کہیں اس کے حقوق سلب کئے گئے تو کہیں اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ آج پاکستانی خواتین خواہ وہ دیہی علاقوں کی ہوں یا شہری علاقوںسے ان کا تعلق ہو ،وہ محنتی اور جفاکش ہیں۔ دیہی معیشت کی ترقی میں ان کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔
آج کی عورت کوجہاں نزاکت کی علامت تصور کیا جاتا ہے ، وہیںاسے مظلومیت کااستعارہ بھی کہا جاتا ہے ۔ وہ ایک طرف تو محرومی کی زنجیروں میںجکڑی ہوئی ہے تو دوسری جانب اعلیٰ مرتبہ کی حق داربھی ہے ۔ حقیقت ہے کہ پاکستان کی عورتیں نہ صرف ذہین ہوتی ہیں بلکہ محنتی بھی ہوتی ہیں۔ وہ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کر کے اپنے گھریلو معاملات کو بڑے احسن انداز میں نبھاتی ہیں۔ اس لئے آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری خواتین مذہبی و معاشرتی اقدار میں رہتے ہوئے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ دنیا کی خواتین سے کسی صورت پیچھے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ آج اگر ہم اپنی خواتین کو دیکھتے ہیں تو وہ نہ صرف گھر میں بلکہ خاندان میں اپنے آپ سے منسلک ہر رشتے کو بڑی خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ سیاسی ، ادبی ، کاروباری ، صحت ، تعلیم ، کھیل جیسا کوئی بھی شعبہ ہو، ہماری خواتین نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ملک کا بھی نام روشن کررہی ہیں۔ ہمارے ملک میں 50فیصد سے زائد آبادی خواتین کی ہے اور یقینا ملک کے کسی بھی شعبہ زندگی میں انہیں نظرانداز کر کے ترقی کا خواب دیکھنا عبث ہے مگر ہماری یہ بدقسمتی کہئے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ عزت و احترام نہیں دیاجاتا جس کی وہ مستحق ہیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک معاشرے کی خواتین کی شمولیت نہ ہو۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہرکامیاب مرد کے پیچھے ایک عور ت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب معاشرے کے پیچھے خواتین کی محنت اور کردار ضرور ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے میاں اور بیوی دونوں کوذمہ داریاں انجام دینی پڑتی ہیں کیونکہ میاں ،بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہئے ہوتے ہیں ۔اگر ایک پہئے میں کچھ خرابی آجائے تو زندگی کا آگے بڑھنا محال ہو جاتا ہے مگر ہماری خواتین اتنی باہمت اور حوصلہ مندی سے حالات کا مقابلہ کرتی ہیں کہ کبھی کبھی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ پاکستان کی خواتین ، ذہین ، محنتی ، ہمت اور حوصلے کی پیکر ہوتی ہیں۔ انہیں قدرت نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازرکھاہے۔
شیکسپیئر نے عورت کے بارے میں کہا تھا کہ اے عورت تو مجسم جلوہ گری ہے اور دنیا پر بغیر فوج کے حکومت کرنا تیرا ہی کام ہے۔ دیکھا جائے توایثار و قربانی ، ہمدردی و محبت کے جذبے سے سرشار پیکر عورت ہی ہوتی ہے ۔
عام مشاہدے میں بھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین زیادہ سمجھ دار اور نیک ہوتی ہیں اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں نے خواتین کے وجود کو اہم قرار دیا اور کہا کہ اس کے وجود سے پوری کائنات روشن ہوئی ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین نے کبھی ملکہ زبیدہ ، کبھی رضیہ سلطانہ کے روپ میں تو کبھی چاند بی بی بن کر قوموں کے مقدر کو چار چاند لگائے ہیں۔ پاکستان کی عورتوں نے اکیسویں صدی میں اپنی صلاحیتوں کا جولوہا منوایا ہے اس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے ۔آج ادب سے لے کر عسکری شعبوں میں بھی عورت وقار کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ مرد بے وفائی کرسکتا ہے مگرعورت کی فطرت میں حیا اور سرشت میں وفا کی صفات موجود ہیں۔ ہم اپنے معاشرے میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عورت کے بغیر گھر داری ، رشتہ داری ، شادی بیاہ اوردیگر امور نبھانا ممکن نہیں ہوتا۔ جس گھر میں عورت نہ ہو وہ گھر ویران ہوتا ہے۔ ملک میں خواتین تعلیمی میدان میں حیرت انگیز رفتار سے ترقی کر رہی ہیں۔ ہم یہ بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت خواتین کی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن آج یہ شرح مردوں کے برابر پہنچ رہی ہے۔ آج کے دور میں مردوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا جس قدر ضروری ہو گیا ہے اسی قدر خواتین کے لئے بھی ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ آج کی بچی، کل کی ماں ہوتی ہے۔ اگرخواتین تعلیم سے آراستہ ہوں تو یقینا اپنے بچوں کی بھی اچھی تربیت کرسکتی ہیں کیونکہ ماں کی گودانسان کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے جہاں سے بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے جو اس کے دل و دماغ پر اثر کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں عورت کے ایثار و کردار پر غور کریں تو جہاں عورت پڑھی لکھی ہوتی ہے وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہے ، ضرورت پڑنے پر ملازمت کر کے معاشی معاملات میں شوہر کا ہاتھ بٹاتی ہے۔دیہات وغیرہ میں جہاں خواتین کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں وہ کھیتو ں میں یا فیکٹریوں میں کام کرکے ، کپڑے سی کر اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔ آج کی عورت نہ کسی پر بوجھ ہے اور نہ کمزور۔
آج کے اس جدید اور معاشی ترقی کے دور میں عورت خوب سے خوب تر کی جد و جہد میں مصروف ہے اور اپنے شریک سفر کی بہترین رفیق بھی ہے۔
آج پاکستان کی خواتین میدانوں میں، فضاﺅں میںاور خلاﺅں میں ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتی پھر رہی ہیں۔ بے شک یہ ان خاندانوں کی خواتین ہیں جہاں انہیں عزت دی گئی، جن کو انسان تسلیم کیا گیا۔ چاہے ان کا تعلق پسماندہ ماحول سے ہو یا شہر کے گھٹن زدہ ماحول سے ، انہیں جینے کا پورا پورا حق دیا گیا۔ ماں باپ نے انہیں اعتماد اور شعور دیا، اس لئے وہ کسی پر بوجھ نہیں،وہ طاقتور ہیں۔ اس لئے وہ توانا سوچ کی مالک بھی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کی خواتین خوش قسمت ہیں ۔یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ وہی معاشرہ مضبوط ہوتا ہے جس معاشرے کی عورت مضبوط ہوتی ہے۔