Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ ساس کی نصیحتیں سن کر گم صم ہو گئی

عنبرین فیض۔ ینبع
اماں کہاں ہیں، آپ دیکھیں تو سہی میں گڑیا کیلئے کیسی شرٹس لائی ہوں۔ اس کے اسکول میں کلر ڈے ہونے والا ہے اور اس کے پاس کوئی ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں۔ اماں مجھے بڑی فکر تھی کہ کہیں ہماری ناک نہ کٹ جائے لیکن یہ دیکھیں امی نے میری فکر دور کردی۔
سحر نے خوشی خوشی اپنی ساری شاپنگ کے تھیلے کھول کر اپنی ساس کو دکھانا شروع کردیئے۔ اچھے ہیں ناں؟ ہاں بہت اچھے ہیں، ساس کا لہجہ کافی سپاٹ ساتھا ۔ناگواری کے تاثرات کو چھپاتا ہوا، خوشی کا اظہار مفقود تھا۔ سحر سمجھ تو گئی لیکن شاپنگ کی خوشی میں وہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے اس طرف وہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔
وہ مزید چیزیں اپنی ساس کو دکھا رہی تھی کہ دیکھیں یہ بہت مشہور برانڈکی شاپ میں سیل لگی ہوئی تھی تو میں نے احسن کیلئے جوتے بھی خرید لئے ۔ اس کے پاس نئے جوتے بھی نہیں تھے۔ کافی مناسب قیمت پر مل گئی ہیں ساری چیزیں، ورنہ میں تو ڈر رہی تھی کہ پیسے کم نہ پڑ جائیں۔ اچھا بہو اب ذرا جلدی سے جاکر باورچی خانے میں دیکھ لو۔ بچے بھی اب اسکول سے آنے والے ہی ہوں گے۔ سحر کی ساس کو اس کی شاپنگ کی تفصیلات سے زیادہ بچوں کے آنے اور ان کے کھانے پینے میں دلچسپی تھی لیکن سحر نے کہا کہ سالن بنا ہوا ہے اماں، اب شام کو ہی کچھ تازہ اور نیا سالن بنالوں گی۔ وہ قدرے بے فکری سے چیزیں سمیٹ رہی تھی۔
بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ بچے کل کا سالن اور روٹی کھائیں ۔یہ تو بچوں کیلئے سزا ہوگی ناں۔ بچوں کیلئے کچھ تازہ مزیدار سی چیز بناڈالو جو ان کو پسند ہو تاکہ وہ خوش ہوکر کھائیں۔ 
یوں تو ساس اور بہو میں خوب بنتی تھی ۔ جہاں ساس اپنی بہو کے اخلاق ، مروت اورسگھڑپن پر خوش ہوتی تھیں وہیں انہیں بہو کے کچھ کاموں پر سخت اعتراض بھی تھا۔ ساتھ ہی انہیں یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ اگر بہو کو کچھ کہہ دیا تو گھر کا ماحول خراب ہوگا۔ بہو کی ان باتوں سے انہیں چڑ تھی کہ ہر دوسرے تیسرے دن بہو کسی نہ کسی کے ساتھ شاپنگ پر نکل جاتی اور ڈھیر ساری چیزیں اٹھالاتی۔ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ سب پیسوں کا ضیاع ہے۔ 
وہ ایسی خاتون نہیں تھیں کہ بہو کو کہتیں کہ میکے سے چیزیں لالاکر گھر بھر دو اور میاں کی کمائی خرچ ہی نہ ہو۔ انہوں نے حق حلال کے پیسوں سے اولاد کو پالا تھا۔ اس لئے اولاد کیلئے ایسی آسائشوں کے حق میں بالکل نہیں تھیں جو بعدازاں سب کیلئے ہی تکلیف کا باعث بنیں لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئے دن فضول قسم کی شاپنگ کے سلسلے میں بہو کو ضرور سمجھائیں گی۔ 
اسے بھی پڑھئے:میں نے یوں حُسن کی تشہیر نہ دیکھی تھی کبھی
سحر جب بچو ں کیلئے کھانے کا انتظام کررہی تھی تو انہوں نے کہا کہ دیکھو بہو یہ کباب بھی نکال لو ، بچوں کیلئے برگر بنا دینا، انہیں بہت پسند ہیں۔ کیچپ اور مایونیز بھی لگانا،برگر مزیدار بن جائیں گے۔ ساس کی بات سن کر سحر نے کہا کہ نہیں اماں کباب تو صرف مہمانوں کیلئے بناکر رکھے ہیں۔ ایک ساتھ اتنی ساری چیزیں استعمال ہونگی تو بجٹ آﺅٹ ہوجائے گا۔ کچھ نہیں ہوتا، رزق کی برکت کی دعا کیا کرو ، اچھا بھلا گھر تو چل رہا ہے تمہارا۔ سلیقے سے چلو گی تو کچھ آﺅٹ نہیں ہوگا۔ میرا بیٹا اتنا کم بھی نہیں کماتا کہ تمہیں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑیں اور گھر کا گزارہ مشکل ہو۔ اما ں نے سمجھاتے ہوئے کہاکہ انسان کو چاہئے کہ سلیقے اور سمجھداری سے خرچ کرے۔ اللہ کریم برکت بھی عطا فرماتا ہے ۔ ویسے بھی انسان کو ہمیشہ اپنی چادر دیکھ کر ہی پاﺅں پھیلانے چاہئیں۔
سحر نے کہا کہ مہینے کے آخر میں تو بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔ آپ مہنگائی بھی تو دیکھیں ، میں نے کون سی فضول خرچ کردی جو آپ خفا ہورہی ہیں۔ میں نے خود تو کچھ نہیں لیا، میری امی نے بچوں کیلئے لے کر دیاہے۔ کیا میری ماں مجھے کچھ دے نہیں سکتیں۔ اس میں حساب کتاب کی کیا بات ہے اماں۔ وہ یہ کہتے ہوئے کچن سے نکل گئی۔ 
تھوڑی دیر بعد ہی سحر کو احساس ہوا کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ شاید اس کی ساس کو اچھا نہیں لگاہوگا۔ وہ اٹھ کر ساس کے کمرے میں آئی اور کہا کہ کیا بات ہے اماں، مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے کیا ؟ ساس نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ بیٹی! اپنے شوہر کی کمائی سے گھر چلانے کی کوشش کرو۔ دیکھنا اللہ کریم برکت عطا فرمائے گا، ان شاءاللہ۔ ماں کے گھر پر لاکھ تمہارا حق سہی لیکن یوں روز روز والدین سے لینا، بھائیوں اور بھابیوں کے دلوں میں تمہارے لئے نفرت پیدا کردے گا۔ ایسی حرکتوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ میکے میں لڑکیو ں کی عزت و تکریم نہیں رہتی۔ سحر کی ساس نے اس سے کہا کہ جوج مائیں ہر وقت اپنی بیاہی بیٹیوں کیلئے چیزیں اکٹھی کرتی رہتی ہیں ان کے دل بہوﺅں کے لئے تنگ ہوجاتے ہیں۔ ایسی مائیں اچھی نانی تو بن جاتی ہیں مگر ساس کے روپ میں بہت ظالم ہوتی ہیں۔ اگر دونوں طرف محبتیں بانٹیں تو اولادیں بھی خوش رہیں اوروہ خود بھی اطمینان محسوس کریں۔ یہی اصل زندگی کا راز ہے۔ 
بے شک تم اپنی ماں سے فرمائش کرو مگر موقع کی مناسبت سے جیسے عید ، بقرعید، بچوں کی کوئی تقریب وغیرہ پرکوئی فرمائش کر دی۔ ہر وقت کے لین دین سے خود کو بچاﺅ۔ دوسروں کی حق تلفی کرکے اپنا گھر بھرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ویسے بھی جس کے نصیب میں جتنا رزق رکھا ہے وہ اس کے گھر تک ضرور پہنچے گا۔ زبردستی چھین کر کسی کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اپنے گھر کی غربت کو دور کرنے کا جتن کرنا درست نہیں۔ حرص انسان کو کبھی سکون نہیں بخشتی ، یہ کبھی ختم بھی نہیں ہوتی۔
سحر اپنی ساس کی نصیحتیں سن کر گم صم ہوکر رہ گئی۔ اس نے کہا کہ میں نے کبھی اس زاویے سے تو سوچا ہی نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میری ماں کے گھر پر میرا بھی پورا حق ہے۔ ساس نے سحر کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ بیٹیوں کے حوالے سے مائیں بہت جذباتی ہوتی ہیںیہاں تک کہ وہ بہوﺅں کی حق تلفی کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتیں۔ اگر بیٹیاں سمجھدار ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنی ماں کو غلطی کرنے سے نہ بچاسکیں۔ مجھے یقین ہے کہ تم میری بات پر ضرور غور کرو گی۔ساس تو یہ کہہ کر چلی گئیںلیکن اپنی بہو سحر کو سوچوں کے سمندر میں چھوڑ گئیں۔ 
 

شیئر: