سید خواجہ وقار الدین۔جدہ
دنیاایک عجائب خانہ ہے جو ہزار درجے رکھتی ہے ۔اس میں بے شمار نشیب و فراز آتے ہیں جو اپنے ساتھ بے شمار غم اور خوشیاں بھی لاتے ہیں ۔کہتے ہیں وقت ایسا مرہم ہے جو ہر غم اور خوشی کو بھلادیتا ہے ۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ حضرت انسان جیسے جیسے عمر کی زیادتی کا شکار ہوتے جاتے ہیں تو ماضی کے حسین سپنوں کو یاد کرکے خوش ہولیا کرتے ہیں ۔ انسان کا ماضی کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو، کہیں نہ کہیں وہ راحت اور سکون کے چند لمحات کو نکال ہی لیتا ہے۔ اسی کو خوشگوار لمحات کا نام دیکر اپنے ساتھیوں میں بانٹتا ہے ۔
اگر کوئی سیدھا سادھا ہمارے جیسا نوجوان ایسے بزرگوں کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اپنے ماضی کے تمام تجربات کو اس پر انڈیل دیتے ہیں اور بضد رہتے ہیں کہ وہ انہی کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل درآمد کریں ۔ ہر بزرگ کی سوچ بھی الگ ہوتی ہے، اسٹوری بھی الگ مگر شکار ایک ہی ہوتا ہے ، وہ ہوتا ہے سننے والا۔
ہمارے دوست مظفر کے والد سے جب بھی ہماری ملاقات ہوتی، وہ ہم سے یوں گویا ہوتے ۔ ارے میاں صاحبزادے سنو! کیا حال بنارکھا ہے اپنا ۔ جوان بچے ایسے تھوڑی ہوتے ہیں ۔ ادھر آو¿ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کس طرح یہ سنہری عمر گزاری جاتی ہے ۔ سب سے پہلے اچھا کھایا پیا کرو ۔کم از کم 2 سے 3 سیر دودھ سیرہوکر پیا کرو۔ کچھ ڈنڈ پیلا کرو، دیکھو تمہاری کھال لٹکنے لگی ہے ۔ مجھے دیکھو 70 سال میں بھی 32 کا لگتا ہوں ۔ کسی نوجوان کا بازو پکڑ لوں تو وہ میرا ہاتھ نہیں چھڑا سکتا ۔ تم نے یہ کیا حال بنارکھا ہے ۔ میاں خود کو سنبھالو ۔ تمہیں معلوم ہے ہم جوانی میں روز 20 میل دوڑ ا کرتے تھے۔ ہمیں 20 میل ہضم نہیں ہوئے تو ہم اخلاقاًتھوڑا سا کھنکاردیئے ۔ پھر کیا تھا،چچا میاں کہنے لگے یہی تو پرابلم ہے نئی نسل کی، خود توصفرہیں اور جب ہم اپنے مشاہدات سامنے رکھتے ہیں تو وہ سر کھجانے لگتے ہیں گویا ہم غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں ۔ ہم نے کہا کہ نہیں چچا جان !بس یونہی کھانسی آگئی تھی ۔کہنے لگے میاں ہم خوب جانتے ہیں کھانسی کی ٹیون کو ، ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے ۔ اچانک سامنے سے چچا کے صاحبزادے اور ہمارے دوست مظفر صاحب نمودار ہوئے ۔چچا ان کی طرف متوجہ ہوکر یوں گویا ہوئے،آئیے آئیے، معتمد انجمن بے روزگاراں آئیے ۔ کدھرکو یہ سواری نکل رہی ہے ۔ مظفر نے کہا کہ جی تھوڑا کام تھا ۔ کہنے لگا میں خوب جانتا ہوں تم نوجوانوں کا کام ۔ایک پل کی فرصت نہیں ، دمڑی کی آمدنی نہیں۔ سدھر جاو¿ کب تک یوں ہی سڑکوں سڑکوں پھرتے رہوگے ۔ دیکھو تمہارے اس دوست کو ۔ ایسے دوستوں کا ساتھ رکھو۔ باقی عابد،حمایت ، ذکی وکی کو چھوڑو یا پھر انہیں ان جیسا بناو¿ ۔ہم نے چچا کے سانس لیتے ہی کہاکہ چچا، امی کو دواخانے لے کر جانا ہے ، میں چلوں ۔ کہنے لگے میاں صاف صاف کہو ہم سے چھٹکارا چاہتے ہو چلو نکلو اور صاحبزادے جلدی لوٹنا ۔
ہم دونوں دوست گلی سے نکل کر دوسری گلی میں اپنے ایک دوست کو پِک کرنے کیلئے موڑ ی ہی تھی کہ ہمارا دوست اس گلی کے دوسرے بزرگ کے ہتھے چڑھا ہوا پایاگیا چونکہ ان بزرگ کی پیٹھ ہماری طرف تھی ،ہم نے دوست کو اشارہ کیا کہ جان چھڑا اور بھاگ کھڑا ہو ۔ اس نے ہمیں اشارہ دیا کہ ابھی چند منٹ ،دو تین اشاروں کے بعد بزرگ نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ،تمہاری توجہ کہیں اور ہے۔ کون ہے اس طرف، یہ کہہ کر وہ ایکدم سے پلٹے تو ہم ان کی نظروں کے سامنے تھے ۔ کہنے لگے اچھا تو شریفوں کی ٹولی گلی کوچوں اور شہر میں آنکھ مچولی کھیلنے جارہی ہے ۔نوابزادو ! جاتے جاتے اتنا سنتے جاو¿ کہ ہم نے بھی بہت سیر سپاٹا کیا، مگر مجال ہے کہ اپنے بزرگوں کے ہتھے چڑھے ہوں۔ ہم نے کہا خالو وہ کیسے ؟ کہنے لگے نالائقو، چو ر بھی جب چوری کرتا ہے تو چار گھر چھوڑ کر کرتا ہے ۔ شہر میں اور بھی محلے اور گلیاں ہیں جہاں کی سیر ہوسکتی ہے ۔کہنے لگے سیر جب بھی کرو ،دور درازکے علاقوں کی کرو اور ہاں وقت کی پابندی کرنا کیونکہ یہ اپنے بزرگوں میں تمہاے تئیں اعتماد کا سبب بنتی ہے ۔ سمجھے بابو۔ہم تمہیں اپنی جوانی کے اہم راز بتارہے ہیں ۔ ہم ان بزرگوں کی طرح نہیں جو نئی نسل کو قید و بند کی صعوبتوں میں رکھ کر کنٹرول یا تربیت کا نام دیتے ہیں ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اپنی زندگانی کو انجوائے کرو مگر حد میں رہ کر کیونکہ یہ چلی گئی تو پھر واپس آنے کی نہیں ۔ آج کے نوجوانوں کو دیکھو، وہ نوجوان کم ،بوڑھے زیادہ لگتے ہیں ۔ یہ کیسی زندگی بسر کررہے ہیں ۔بچپن انہوں نے ایسے تیسے کرکے گزار دیا ، جوانی میں ان کی صبح 2 بجے ہوتی ہے ،پھر بن سنور کر 5 بجے باہر نکلتے ہیں اور رات بھر شہر کی خاک چھانتے ہیں ۔پھر وقت انہیں بڑھاپے کی دہلیز پر لاکھڑا کرتا ہے ۔بھلایہ کوئی زندگی ہوئی ؟کسی شاعر نے کہا تھا کہ:
لڑکپن کھیل میں کھویا ، جوانی نیند بھر سویا
بڑھاپا دیکھ کر رویا، یہی قصہ پرانا ہے
بزرگوں کے تجربے اور ہدایات نے ہمیں جوانی کی دہلیز پر کوئی اثر نہیں دکھایا ۔ ہمارے دوستوں کا زاویہ دن بدن بڑھتا گیا ۔ جہاں بے شمار اچھے دوست تھے وہاں چند ایک رنگین مزاج بھی تھے ۔ کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کردیتی ہے ۔ہم سنجیدہ دوستوں کو گھروالوں کی کڑی نگرانی نے رنگینیوں میں جانے دور رکھا ۔ ہماری پہنچ صرف اتنی تھی کہ ہم پکنک پرچلے گئے ، اسکول اور کالج سے چھٹی کرکے سوئمنگ پول پرچلے گئے۔ کبھی کبھی گروپ کے اسرار پر سینما گھر چلے گئے لیکن ہاں ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہم نے روڈ فائٹنگ بہت کی ۔ ہم کسی کو چھیڑتے نہیں تھے مگر یہ بھی صحیح تھا کہ اگر کوئی چھیڑتا تو پھر چھوڑتے نہیں تھے ۔ کئی دفعہ منہ پھڑوا لیا ، ہاتھ تڑوا لیا ،کپڑے پھٹ گئے توایسی صورت میں رات دیر گئے اندھیرے میں والدین کے سونے کا انتظار کرکے بہنوں کی مدد سے گھر کی پچھلی کھڑکی سے داخل ہوکر کپڑے تبدیل کرکے دبکی مارکر سوجاتے ۔قربان جائیے ماں پر وہ ہماری آمد کا انتظار کرتیں اورآنکھیں موند کر لیٹی رہتیں اور جان کر بھی انجان بنی رہتیں۔ پھر ہماری آہٹ ، یا سانسوں کو جان جاتیں تو اتمام حجت کے لئے بیٹیوں سے کہتیں وہ آیا کہ نہیں ۔بہنیں جھوٹ موٹ کہتیں، وہ تو بہت دیر پہلے آگئے تھے، اور سوبھی گئے ۔تب کہیں وہ چین کی نیند سوجاتیں ۔
آج ہم خود صاحب اولاد ہوگئے ، نوکری اور گھر گرہستی کی ذمہ داریوں میں الجھ گئے تو ہمیں وہ بزرگ جو نصیحت کرتے تھے اور وہ والدین جو ہمارے عیوب پر پردہ ڈالتے تھے، ہمیں شدت سے یاد آتے ہیںمگر ہاں بچپن اور جوانی کی وہ نرم وگداز اور میٹھی میٹھی یادیں آج بھی جب یاد آتی ہیں تو بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ :
آتا ہے یاد مجھ کو گزر ا ہوا زمانہ