’’بھاؤ‘‘.....’’می ٹو ٹیگ‘‘
شہزاد اعظم
ویسے تو کہا جاتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے مگر یقین جانئے ، ہمارا مشاہداتی تجربہ اس سے ذرا ہٹ کر ہی ہے ۔ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہمارے لنگوٹیوں میں شامل’’پنکو‘‘ ہیں۔ ان کا یہ عالم ہے کہ اس وقت سے جب انہیں زبان چلانی بھی نہیں آتی تھی ، تب سے ہی انہوںنے نجانے کہاں سے یہ بات سیکھ لی کہ وہ فیڈر سے دودھ پیتے اور فارغ ہو کر فیڈر کو دیوار میں دے مارتے۔اس زمانے میں بچوں کو ’’شیرنوشی ‘‘کے لئے استعمال کرائی جانے والی بوتلیں بھی کانچ ہوا کرتی تھیں چنانچہ انجام یہ ہوتا کہ دن میں ’’پنکو‘‘ 5مرتبہ شیرنوشی فرماتے اور یوں اوسطاً3بوتل یومیہ کا نقصان ہوتا۔جب پنکو کوان کے ابا اماں تھپڑ، جوتا ،لات وغیرہ کا استعمال کر کے بوتل دیوار میں دے مارنے سے روکنے کی کوشش کرتے تو وہ ضد میں آ کر پانچوں مرتبہ دودھ پی کربوتل چکنا چور کر دیتے۔بیٹے کے ان کرتوتوں سے تنگ آ کر اماں ابانے پنکو کا نام ہی’’ پھینکو‘‘ رکھ دیا۔نام کی تبدیلی کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ پنکو پر نام کے ا ثرات مرتب ہونے لگے مثلاً پنکو کی اماں انہیں گھی شکر کی ’’کوکو‘‘جسے آج کے دور میں پراٹھا رول کہا جاتا ہے، بنا کر دیتیں۔ وہ شوق سے کھاتے اور جیسے ہی پیٹ بھرتا، اٹھا کر پھینک دیتے۔ٹوپی پہنتے، اپنے ابا کے ساتھ نماز پڑھتے اورپھر ٹوپی اتار کر پھینک دیتے۔اماں کیلا دیتیں، وہ جتنا دل چاہتا کھاتے اور باقی اپنے پالتو کتے کے آگے ڈال دیتے۔رات کو سونے کے لئے بستر پر جاتے تو چپل اتار کر کمرے کی کھڑکی سے باہر پھینک دیتے۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ پھینکو نے کھڑکی سے باہرجوتا پھینکا اور وہ گلی سے گزرنے والی کسی خاتون کے سر یا منہ پر جا لگا۔ وہ ہاتھ میں جوتی دبائے،چیختی چلاتی، گھر میں گھس آتی اور کہتی کہ جس نے یہ جوتی پھینکی ہے ، اسے میرے سامنے لائو، جب تک میں اس جوتی سے اس کی درگت نہیں بنائوں گی، مجھے قرار نہیںآئے گا۔ قصہ مختصر، پھینکو کے والدین اوراہل محلہ نے کچھ بھی کر لیا مگر وہ موصوف کی عادت نہیں چھڑا سکے۔جب انہوں نے خود کمانا شروع کیا تو اشیاء کی ’’پھنکائی‘‘ کم کر دی کیونکہ اس کا مآل بھگتنے کے لئے انہیں اپنی جیب سے مال خرچ کرنا پڑتا تھااس لئے انہوں نے اب بڑی بڑی باتیں کرنی شروع کر دیں۔ لوگ ان کی باتوں کو ’’شیخی‘‘ قرار دیتے ہوئے زیادہ توجہ سے نہیں سنتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان پر نام کابے حد اثر ہوتا ہے ،اب دیکھ لو، نام پھینکو ہے تو کتنی پھینکتا ہے مگر........
آج ’’نان اسمارٹ ‘‘ عمر میں اسمارٹ فون پر ہماری بات پھینکو سے ہوئی۔ انہوں نے جو حیاتیاتی حقائق بیان کئے، انہوں نے یوں سمجھیں کہ ہمارے ذہن کوسوچوں کے سمندر میں غرق کر دیا۔پھینکو نے کیا فرمایا، آپ بھی سنئے:
پرانے وقتوں میں شادیاں بہت جلدی ہو جایا کرتی تھیں۔ ہماری نانی 14سال کی عمر میں سسرال میں تھیں۔اس کا انجام دیکھ لو کہ میں اپنی سب سے چھوٹی خالہ سے 15سال بڑا ہوں۔ہماری سب سے بڑی خالہ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی ، ہماری سب سے چھوٹی خالہ کی سب سے بڑی بیٹی سے ہوئی اور سب سے بڑی خالہ کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادیز سب سے چھوٹی خالہ کے سب سے بڑے بیٹے سے ہوئی۔یقین جانئے ، سب کے سب خوش و خرم ہیں۔ایک اور حقیقت بیان کرتا چلوں کہ کل ہی میں نے اپنی نانی سے کہا کہ آپ کو کبھی کسی نے ہراس کا شکار کیا؟انہوں نے کہا کہ ہاں، کئی مرتبہ۔ تمہارے نانا مجھے اکثر ’’بھائو‘‘ کہہ کر ہراش کا شکار کر دیا کرتے تھے۔ میں نے سر پیٹ لیا اور پھر نانی کو سمجھایا کہ میں غیروں کی جانب سے خوف و ہراس میں مبتلا کئے جانے کی بات کر رہا ہوں۔ آپ مجھے کوئی ایسا واقعہ سنائیں جس میں کسی نے آپ کو ڈرایا ہو، ہراس میں مبتلا کیا ہو تاکہ میں آپ کو آپ کے نام کے ساتھ ’’می ٹو‘‘ میںٹیگ کر سکوں پھر میں دیکھوں گا کہ کتنے لائیکس ملتے ہیں؟
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ نانی جان پرانے وقتوں کی ہیں ، بات کو سمجھ نہیں رہیں مگر میں یہ بھو ل گیا تھا کہ وہ میری نانی ہیں۔کہنے لگیں کہ کسی نامحرم کی کیا مجال کہ وہ مجھے ’’لائیک‘‘ کرتا۔ مجھے میرے والدین نے تمہارے نانا کے ساتھ ’’ٹیگ‘‘ کر دیا تھاپھر کسی کی جرأت کیسے ہو سکتی تھی کہ وہ مجھے ’’می ٹو‘‘ میں شامل ہونے پر مجبور کرسکتا۔ میرے نکاح کے بعد میرے والد نے اپنے داماد سے کہا تھا کہ میں اپنی بیٹی بیاہ کر گھر سے رخصت کر رہا ہوں،اسے میں نے دیکھاہے کہ میں اس کا باپ ہوں، اسے میرے بیٹے نے دیکھا ہے کیونکہ وہ اس کا بھائی ہے ۔ تیسرے مرد آپ ہوں گے جو اسے دیکھیں گے کیونکہ میں نے اسے آپ کے عقد میں دے دیا ہے۔پھر پتا ہے کیا ہوا، تمہارے نانا نے جب مجھے دیکھا تو دم بخود ہوگئے، یقین جانو، پلک جھپکناہی بھول گئے۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگے مجھے آپ کے جمال نے ہراساں کر دیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آپ پلکیں جھپکتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بدلی چاند کو لمحے بھر کے لئے چھپا کر گزر گئی ہو۔مسکراتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بہار نے اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے۔زلفیں بکھرائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے دن کے اُجالے پر گھنگورگھٹانے غلبہ پا لیا ہے۔ان سیاہ زلفوں میں چہرہ جیسے سیاہ آسمان میں مسکراتاماہتاب۔سچ تو یہ ہے کہ تمہارے نانا ہی بے چارے ساری زندگی مبتلائے ہراس رہے۔
ہم نے کہا کہ نانی جان ہمارے ہمسائے میں تو حالت یہ ہے کہ شادی کو سال بھی نہیں ہوا تھا، لڑکی کو طلاق ہوگئی۔اب دیکھو دوسری شادی کے طلبگاروں کے رشتے تو آ رہے ہیں مگر پہلی بیوی بنانے کوکوئی تیار نہیں۔ نانی نے فرمایا:
بیٹا، آج کل حالت یہ ہے کہ آستینیں غائب ہیں، دوپٹے قصہ پارینہ ہوگئے، ٹائٹس کے نام پر فحاشی کا نیا باب کھولا گیا۔ گھر سے اس حال میں نکلنے والیوں کو کوئی بھی بیٹی سمجھ کر تو دیکھنے سے رہا، ان پر آلودہ نظریں پڑتی ہیں تو چہرے بھی پھٹکار زدہ ہو جاتے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں جس کے باعث صنف نازک کو ا پنی بے قدری کا احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ اپنے جمال کی خزاں کو بہار سے بدلنے کے لئے طرح طرح کے میک اپ استعمال کرتی ہے ، سیلفیاں لی جاتی ہیں، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تصاویر’’چھوڑی‘‘ جاتی ہیں۔ کوئی انہیں نہ دیکھے تو احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں اور کوئی دیکھ لے تو ’’ہراساں‘‘ کئے جانے کی شکایت کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایسی میک اپ زدہ،بے پرد ہستیاں جب بیاہ کرسسرال پہنچتی ہیں اور وہاں میک اپ کئے بغیر شوہر کے سامنے جاتی ہیں تودولہا میاں انہیں دیکھ کر خوف و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں اوراس ہراس سے چھٹکارہ پانے کے لئے وہ دلہن کو واپس بھیج دیتے ہیں۔پھینکو، میری ایک بات سب کو بتا دینا کہ اگر صنف نازک اپنے آپ کو مستور رکھے تو اس کے دیدار کی خواہش میں اٹھنے والی ہر آنکھ مایوس ہو کر لوٹ جائے گی۔ کوئی اس کے قریب آنے کی کوشش کرے گا، نہ سیلفی بنوانے کی اور نہ ہی ہراساں کرنے کی جرأت کر سکے گاپھر ’’می ٹو ٹیگ‘‘ کا چلن بھی کسی باؤلے کی بڑ سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہوگا۔ پھینکو!ہیرے کو سر راہ پھینک کر تحفظ، توقیر اور تعظیم کی دہائی دینا شب دیجورمیں سورج تلاش کرنے کے مترادف ہے ۔
مزید پڑھیں:- - - - -نوالہ