جاوید اقبال ۔ ریاض
ریاض کے حلقہ فکر و فن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کے زیر سرپرستی ایوب صابرکے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا۔ دلکش مضامین پڑھے گئے اور دلفریب کلام سمع نواز ہوا۔شعری نشست میں شعراءنے خوبصورت کلام پیش کیا اور رنگ محفل کو دوبالا کردیا اور یہ حقیقت ہے کہ انتہائی دلنشیں کلام سننے کو ملا۔نو آمور شعراءکا ڈکشن بھی پرُ تاثیر تھا۔ وقار نسیم وامق اب ایک منجھے ہوئے شاعر ہوچکے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
٭٭وقار نسیم وامق:
جیسے کہ عندلیب کو ذوق چمن دیا
صحرا مزاج قو م کو سرو و سمن دیا
ہم کو خدا کی ذات نے بخشی سماعتیں
تم کو خدائے پاک نے حرفِ سخن دیا
لفظوں کے انتخاب اور خیال میں منصور چوہدری کی ندرت بے ساختہ اور دلکش تھی۔ انہیں بے حد داد ملی۔
٭٭ منصور چوہدری :
کبھی نہ لہر بن سکا بہاﺅ میں گزر گیا
سکوں کی آرزو لئے تناﺅ میں گزر گیا
گزر گئی تمام عمر جس کی آرزو لئے
وہ لمحہ¿ وصال رکھ رکھاﺅمیں گزر گیا
٭٭کامران ملک:
تیرے رستوں کی خاک چھاننی ہے
خود کو مٹی میںروندنا ہے مجھے
تیرے بارے میں سوچ بیٹھا ہوں
اپنے بارے میں سوچنا ہے مجھے
٭٭محسن رضا ثمر :
جو مانگتا ہے تو اس کی عطا کو دیکھ کے مانگ
ریاض کے چوہدری سجاد علی بڑا دبنگ لہجہ رکھتے ہیں۔ شعر میں سادگی اور سچائی ہوتی ہے۔ ایوب صابر کو الوداع کہتے ان کے الفاظ پرُ تاثیر تھے۔
٭٭چوہدری سجاد علی:
بہت تکلیف دیتا ہے کسی کو الوداع کہنا
دکھائی کچھ نہیں دیتا سنائی کچھ نہیں دیتا
فقط کچھ کپکپاتے لفظ جو ہونٹوں پہ آجائیں
ابھرتی گونجتی دھڑکن اسے آواز دیتی ہے
ہمایوں اختر کی فکاہیہ نظم کے بعد شہزاد عجمی نے اپنا کلام سنا کر داد پائی۔
٭٭شہزاد عجمی :
کیسے ممکن ہے تیری یاد سے غافل رہنا
اچھا لگتا ہے تیرے در کا سوالی رہنا
٭٭٭
ہر سمت سے پتھر ہیں لگے سر پہ ہمارے
جب ہم نے پکاراسر بازار محبت
دنیا میں محبت کا کوئی مول نہیں ہے
دولت سے نہیں ملتی میرے یار محبت
حلقہ فکر و فن کے رکن یوسف علی یوسف کا شعر نئے لہجے اور آہنگ کا ہے۔ الفاظ کا انتخاب سامع کے دل پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ انہیں بے حد داد ملی۔ نمونہ کلام:
٭٭ یوسف علی یوسف:
جس نے دیوانگی مجھے بخشی
اس نے ہی سنگسار کر ڈالا
زندگی سی حسین شے کو بھی
صرف لیل و نہار کر ڈالا
یاسمین ظہیر نے کیا خوبصورت کہا:
٭٭یاسمین ظہیر :
آجا¶ تم کہ کوئی تعین تو ہوسکے
تھوڑا سا فاصلہ ہے گمان و حیات میں
ہم ایک رنگ پر ہی دل و جان سے گئے
قدرت نے لاکھ رنگ بھرے کائنات میں
حلقہ فکر وفن ریاض کے نائب صدر محمد صابر قشنگ نے انتہائی دلکش کلام پیش کیا ۔ ان کا خیال ایک خوشگوار حیرت لئے ہوئے تھا۔
٭٭ محمد صابر قشنگ :
مرے سفر کا کوئی فاصلہ مقرر ہو
میں کس کے ساتھ چلوں قافلہ مقرر ہو
ہماری بات کا ہر دوسرا مخالف ہے
ہماری بات پر اب تیسرا مقرر ہو
ناظم حلقہ فکر و فن منطقہ شرقیہ شعیب شہزاد نے چند اشعار ایوب صابر کی نذرکئے۔
مسعود جمال وفور عشق کے اظہار میں سب پر بازی لے گئے۔
٭٭مسعود جمال:
تیرے وفور عشق نے دیوانہ کردیا
محفل سے آج میں یونہی رقصاں نکل گیا
مجھ کو نہیں ہے علم کہاں پر ہوں کیا ہوں میں
تیرے خیال میں کہیں غلطاں نکل گیا
سلیم حسرت کے مزاحیہ کلام نے محفل کا رنگ بدل ڈالاٹ
٭٭سلیم حسرت:
گھر جمائی یوں کھڑے مادام کی دہلیز پر
جس طرح جھکتا ہے سورج شام کی دہلیز پر
غزالہ کامرانی نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو شعر میں ڈھالا۔
٭٭غزالہ کامرانی:
رنج و الم ہے دل کا سبھی سے چھپا ہوا
آنسو ہے میری پلکوں پہ ایسے رکا ہوا
کیسے سنا¶ں پھر میں محبت کی داستاں
شاید تو کہہ اٹھے ہے فسانہ سنا ہوا
اس کے بعد مہمان خصوصی ایوب صابر کو دعوت کلام دی گئی۔
٭٭ایوب صابر:
عکس دو لخت ہوکر سسکنے لگا
اس کو کیا مل گیا آئینہ کاٹ کر
میں نے باہر نکالا نہیں تھا قدم
مجھ کو کھینچا گیا دائرہ کاٹ کر
آج ہنستے ہوئے اس کو رونا پڑا
چیخ نکلی ہے یوں قہقہہ کاٹ کر