دونوں نے کینٹین کی جانب قدم بڑھادیئے، ثانیہ کے قدم اچانک ساکت وجامد ہو ئے،اس نے رخ موڑااور وحشت زدہ لہجے میں سرگوشی کی، ندا وہ دیکھ !وہاں بدتمیز رضا بیٹھا ہوا ہے
ناہید طاہر۔ ریاض
قسط 6
کبھی تو اس ثانیہ کی سوانح عمری پر روشنی ڈالیں‘۔رضاکاتجسس عروج پر تھا۔
’کیوں ،آج کل ثانیہ میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے‘؟نداسراپاسوال بن گئی۔
’بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔تم تو کچھ اور ہی مطلب اخذ کرنے لگی‘۔رضانے ٹالناچاہا۔
’بھئی اس جنرل نالج ، شوق کی کوئی تو وجہ ہوگی۔؟نداکااشتیاق دوچندہوگیا۔
’وجہ تو کچھ نہیں ! گوگل دیکھنے کے بعد کچھ سرچ کیا جائے، طبیعت تو چاہتی ہے ! اس میں حرج کیا ہے‘۔رضا نے شرارت سے ہنستے ہوئے کہا۔
’ اچھا یہ بات ہے ‘۔ندا تیز نگاہوں سے رضا کو دیکھنے لگی۔
’کینٹین میں کافی فریش آئس کریم آئی ہے۔کیا خیال ہے؟رضانے اس کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔
’آئس کریم‘۔ندا کھلکھلائی۔
رضا، ندا کو اپنی چھوٹی بہن کی طرح پیار کرتا تھااور ندا بھی رضا کے اس جذبے سے واقف تھی۔
’ثانیہ اچھی لڑکی ہے نا‘؟وہ آئسکریم کھانے کے دوران رضا کے دل کو ٹٹولنے کی کوشش کرنے لگی۔
’یہ اچھا براکیاہے۔وہ دوسری لڑکیوں کی طرح ایک لڑکی ہے بس! اس کے آگے کچھ نہیں‘! جانے کیوں وہ ٹالنے کے موڈ میں تھا۔
’رضا یہ آوارگی ختم نہیں ہوگی ؟ندانے سرزنش کی۔وہ دونوں آپس میں کافی بے تکلف تھے۔
’چھوڑ ونایار۔ ویسے تم آج کل اس نک چڑی ثانیہ کی بڑی تابعداربنی ہوئی ہو۔ ‘۔رضاجانے کیوں اس موضوع سے ہٹناچاہ رہاتھا۔
میں چاہتی ہوں ، جس نے مجھے سچی راہ دکھائی ایک دن وہ تمہیں بھی راہ راست پر لے آئے‘۔ندانے صدق دل سے اعتراف کیا۔
’وہ کیسے‘؟رضا کے لبوں پہ سوال مچل اٹھا۔
’تمھاری زندگی میں شامل ہوکر‘۔ندانے فیصلہ کن بات کہی۔
استغفراللہ۔۔۔!!!!
آئسکریم تیزی سے پگھلنے لگی تھی۔رضانے ایک جھٹکے سے اسے دور پھینک دیا۔ندا حیرت سے رضا کو دیکھنے لگی۔
ثانیہ کافی سنجیدہ اورسلجھی ہوئی لڑکی تھی۔اس میں بے شمار خوبیاں اور بے پناہ قابلیتں موجود تھیں۔ چند ماہ کے دوران اس نے کالج میں اپناایک مقام پیدا کیا۔ثانیہ کے والد پوسٹ آفس میں کلرک کے عہدے پر فائز تھے۔ عہدے کا قد چھوٹا تھا توضروریات زندگی قد آور جن تک پہنچ پانا ممکن نہ تھا۔انور انجینئرنگ فائنل ائیر میں تھا۔ ناز بی ایس سی سیکنڈ ائیر کی طالبہ۔ثانیہ کی ملازمت سے خوشحالی کے رنگ کھل اٹھے تھے۔ ثانیہ بھی بہت حدتک مطمئن تھی۔
لنچ کاوقت ہوا توثانیہ ، ندا کے قریب پہنچی۔
’ ندا جلدی چل۔۔۔۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔ صبح ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا‘۔ثانیہ کی بھوک عروج پرتھی۔
’ اچھا با باچلوچلتے ہیں‘۔ندا نے قلم پرس میں رکھا اور چلتے چلتے جواد کا میسج چیک کرنے لگی جو اس کا منگیتر تھا۔دونوں نے کینٹین کی جانب قدم بڑھادیے۔ ثانیہ کے قدم اچانک ساکت وجامد ہو ئے۔اس نے رخ موڑااور وحشت زدہ لہجے میں سرگوشی کی۔ ’ ندا وہ دیکھ !وہاں بدتمیز رضا بیٹھا ہوا ہے‘۔ندانے موبائل سے نظریں اٹھا کر رضاکو دیکھا اور مسکرادی۔ وہ بھی انھیں دیکھ کر مسکرادیا۔وہ اپنی پسندیدہ شاگردوں کے درمیان بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
’ یہاں سے چلتے ہیں‘۔وہ جلدی سے نکل جاناچاہتی تھی۔
’کیوں‘؟ندا،حیران ہوگئی۔
’مجھے یہ شخص زہر لگتا ہے‘۔ ثانیہ نفرت سے بولی۔
’ لیکن یارمیٹھا ہے۔ !!! ندا شوخ ہوگئی۔یہ زہر تمھیں مبارک۔۔۔!!!ثانیہ کی برہمی قابل دیدتھی۔
’یہ تیرے لیے تھا۔میری تو منگنی ہوچکی۔ندا ہنستی ہوئی ثانیہ کوچھیڑنے لگی۔
’ شٹ اپ! ‘ ثانیہ کوضبط کایارانہ رہا۔
’یار تو اس قدر غصہ کیوں ہوتی ہے۔میں نے زبردستی تھوڑی کی ہے‘۔نداسنجیدگی سے بولی۔۔
’ندا ابھی تم میرے ہاتھ سے مار کھاﺅگی۔ثانیہ نے ہاتھ دکھایا۔
’واقعی لگ رہا ہے کہ شدید بھوکی ہو‘۔ندا ثانیہ کوچھیڑ تی ہوئی قریب کی ٹیبل پر پرس رکھ کر کرسی پہ بیٹھ گئی۔
’چلویہاں سے چلتے ہیں۔وہ بد تمیز انسان پھرکوئی توہین آمیز بات کہہ دے گاجو مجھے برداشت نہ ہوگی ‘۔ثانیہ ہاتھ چھڑاکربھاگنے کے موڈ میں تھی۔ (باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭