عبداللہ المزاھر۔ مکہ
چینل 10سے میری مراد صہیونی چینل ٹین ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اب تک اس بارے میں نہ سنا تھا اور نہ ہی پڑھا تھا۔ مجھے اس کا علم ہی نہیں تھا۔ ابھی تک مجھے نہیں معلوم کہ صہیونی کتنے چینل چلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پرمجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ چینل تھری کی پہچان کیا ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ ہمارے بعض عرب بھائی چینل سیون یا چینل نائن سے معلومات کیوں حاصل کرتے ہیں؟
اہم بات یہ ہے کہ حالیہ ایام میں اس چینل کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی ہونے لگا ہے۔ بعض عرب برادر سعودی عرب سے متعلق خبریں اسی چینل سے حاصل کرکے پھیلا رہے ہیں۔ عجیب و غریب بلکہ حیرت ناک امر یہ ہے کہ ہمارے یہ برادرممالک ’ ’اللہ ہمیں اور انہیں ہدایت دے“ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اسرائیل اور اس کے تمام ذرائع ابلاغ جھوٹ کے سہارے چل رہے ہیں مگر معاملہ اگر سعودی عرب کا ہو تو ہمارے عرب برادر اُسے ”الصادق الامین“ شمار کرنے لگتے ہیں۔
اسرائیلی چینل کے ایسے دعوے بھی عرب بھائیوں کے یہاں حق و یقین کا درجہ رکھتے ہیں جن کی بابت سعودی عرب دو ٹوک واضح موقف کا اعلان کئے ہوئے ہو۔ انہیں اس بات سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے۔ دلچسپی کا محور یہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے سعودی عرب کو الزامات کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جائے۔
زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ جب عرب برادر سعودی عرب سے خفا ہوتے ہیں تو اس پر مسئلہ فلسطین سے غداری کا الزام لگانے میں ادنیٰ حیا محسوس نہیں کرتے حالانکہ انہیں پتہ ہے کہ صہیونیوں سے سعودی عرب کا کوئی رسمی تعلق نہیں۔ اسکے برخلاف الزام لگانے والے وہ ہیں جہاں صہیونی پرچم لہرا رہا ہے اور صہیونی اس ملک کے دارالحکومت کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔ اس پر نہ انہیں غصہ آتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین کی گتھی سلجھانے میں ہمیشہ کلیدی کردارادا کیا۔ نعرے بازی کا کبھی سہارا نہیں لیا۔ عربوں کا معاملہ دیگر ہے۔ انہیں چمکدار بیانات اور پرجوش تقاریر بڑی پسند ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے ذہن و دل پر جادو سے کہیں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں اس گتھی کو یہ کہہ کر سلجھانے کی کوشش کرونگا کہ ہمارے سامنے ایک ایسا ملک ہے جو صہیونی سیاستدانوں، کھلاڑیوں او رفنکاروں کی میزبانی کرتا ہے اور پھر اس ملک کا میڈیا شور مچاتا ہے کہ سعودی عرب القد س اور مسئلہ فلسطین سے منہ پھیر رہا ہے۔ کیا اس کا مقصد حقیقی غداری سے لوگوں کی نظریں ہٹوانا ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور راز پوشیدہ ہے؟ بہرحال حقیقی علم اللہ کو ہی ہوگا۔ میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اگر عرب زبان زوری سے زیادہ عمل پر توجہ دیں اور انہیں ایمان کا حقیقی نشان سمجھیں تو ایسی صور ت میں انکے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭