Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سی پیک، متوقع سرمایہ کاری

 
محمد مبشر انوار
@MMAnwaar
    ہمسایہ ملک چین ،اب بجا طور پراقوام عالم میں اپنی حیثیت کو تسلیم کروا چکاہے اور اس کے عالمی منصوبے اس کے معاشی استحکام کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور جیسا کہ فی زمانہ ریاستوں کے استحکام کا پیمانہ ان کی معاشی صورتحال سے لگایا جاتا ہے کہ جتنی معاشی صورتحال مستحکم ہو گی، ریاست اتنی ہے مضبوط تصور ہو گی جبکہ بسا اوقات کثیر تعداد میں آلات حرب و ضرب کی موجودگی بھی ریاست کے محفوظ و مستحکم ہونے کی ضامن نہیں ہوتی کہ آج وہ دور تمام ہوا جب ریاستیں حکمرانوں کی ہوس اقتدار میں لاؤ لشکر کے ساتھ کسی کمزور ریاست پر حملہ آور ہو کر اسے ہڑپ کر لیا کرتی تھی۔ آج ریاستوں کو کمزور کرنے کے نئے طور طریقے نکل آئیں ہیں جہاں حریف کو زیر کرنے کیلئے اس کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا جاتا ہے اور ریاست خود بخود جھولی میں آ گرتی ہے،ثقافتی یلغار اس کے علاوہ ہے ۔ چین کی ترقی فقط معیشت کی حد تک نہیں بلکہ وہ اپنے تحفظ کے معاملے میں بھی پوری طرح بیدار ہے اور اپنی حفاظت سے متعلقہ تمام تر پیشرفت انتہائی تسلسل اور دور جدیدکی ضروریات کے عین مطابق کر رہا ہے ۔اس وقت چین کی سب سے اہم ضرورت اپنی مصنوعا ت کو عالمی منڈی میں ،عالمی ضروریات اور قوت خرید کے مطابق فراہم کرنے کی ہے ،جس کی خاطر وہ پوری دنیا کو ایک مواصلاتی نظام میں پرونے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس منصوبے کا ابتدائی حصہ پاکستان میں بننے والا سی پیک منصوبہ ہے،جس کی بدولت ابتدائی طور پر چین کی رسائی مشرق وسطی تک زمینی راستے سے ممکن ہو جائے گی اور اس کی مصنوعات کومشرق وسطی تک پہنچانے کی لاگت انتہائی کم ہو جائے گی۔ سی پیک منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات گو کہ ریاست پاکستان کوبطور قرض دئیے گئے ہیں جو بعد ازاں پاکستان سے وصول کئے جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی سرگرمیوں میںجو تیزی آئے گی،اس کے ثمرات یقینی طور پر پاکستانی عوام سمیٹنے میں کامیاب ہو گی۔سی پیک منصوبہ ایک طرف پاکستانیوںکے لئے نئے دروازے کھول رہاہے تو دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ چین جس کی معاشی ترقی ،اس کے صنعتی اداروں نے رکھی ہے بلکہ کسی بھی ریاست کی معاشی ترقی اس کی صنعت و حرفت کی مرہون منت ہوتی ہے،اس منصوبے کے عمل پذیر ہونے کے بعد مقامی صنعتیں بری طرح سے زوال کا شکار ہو جائیں گی۔ چین اس منصوبے کی عدم موجودگی میں باقی دنیا کو صنعت کو جس تیزی کے ساتھ نگل رہا ہے،اس کے عالمی مواصلاتی منصوبے کے بروئے کار آنے کے بعد مقامی صنعتوں کی کیا حالت ہوگی،ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس وقت بھی دنیا بھر کے معروف عالمی برانڈز پر ’’میڈ ان چائنہ‘‘ لکھا نظر آتا ہے۔ سی پیک پرفی الوقت جو منظر نامہ ہے، اس میں چینی عمل دخل ضرورت سے زیادہ ہے کہ منصوبے کی تکمیل میں چینی ہنر کاروں کا عمل دخل زیادہ ہے اور دوسری اہم بات چند ایک واقعات ایسے ہوئے ہیں جہاں چینی ہنرکاروں نے دنگا فساد کیا ہے اور بظاہر پاکستانی ادارے ان کے سامنے بے بس یا کمزور دکھائی دئیے ہیں، ایسے واقعات کا فی الفور،گربہ کشتن روز اول کے مصداق، تدارک کیا جانا ضروری ہے ۔
    گو کہ چین اپنے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر پورے انہماک کے ساتھ عمل پیرا ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس منصوبے کے خلاف اس کے حریف بالکل خاموش ہیں بالخصوص امریکہ جس کی عالمی اجارہ داری براہ راست اس منصوبے سے متصادم ہے، خطے میں موجود ہندوستان(جو گرچہ اس منصوبے کے دوسرے فیز میں حصہ دار ہے)اس ابتدائی منصوبے کی نہ صرف شدید مخالفت کر رہاہے بلکہ اس کے متبادل دوسرا روٹ بنانے اور امریکی مفادات کی نگہبانی میں بھی مصروف ہے تا ہم جیسے جیسے یہ منصوبہ تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے ویسے ویسے خطے کے دیگر ممالک امریکی دباؤ سے آزاد ہوکر اپنے ریاستی مفادات کے تحت اس منصوبے کا حصہ بننے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسی پس منظر میں سعودی وزیر توانائی کا حالیہ دورہ پاکستان اور سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری خبریں زیر گردش ہیں اور ممکنہ طور پر سعودی عرب سی پیک منصوبے میں،بعد از انتخابات نئی حکومت تشکیل پانے کے بعد،کثیر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔سعودی عرب کی نوجوان قیادت اپنے وژن 2030کے عین مطابق اپنے اہداف بڑی تیزی کے ساتھ حاصل کر رہی ہے،جس میں بنیادی عنصر مقامی آبادی کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی تارکین وطن پر انحصار کو کم کرنا بھی شامل ہے۔ اس وقت سعودی مارکیٹ میں غیر ملکی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد روبہ عمل ہے اور یوں وہ براہ راست سعودی معیشت میں حصہ دار ہیں گو کہ یہ غیر ملکی تارکین وطن اپنے خون پسینے سے مملکت میں جاری منصوبوں کی تکمیل میں اپنا کردار تو ضرور ادا کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف سعودی افرادی قوت کے لئے میدان عمل میں شرکت کے مواقع کو محدود رکھے ہوئے ہیں ۔ سعودی حکومت کی بنیادی پالیسی کے مطابق ،عالمی تناظر میں زیادہ سے زیادہ مقامی آبادی سے ہنر مند افرادی قوت تیار کرنا چاہتے ہیں اور پبلک پرائیویٹ سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ مقامی آبادی کو کھپانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے لئے مرحوم شاہ عبداللہ نے سرکاری وظیفے پر تقریباً 5لاکھ طلبہ کو اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر سرکاری وظیفہ پر بیرون ملک بھیجا تھا،جو اب تقریباً اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ اس منصوبے کے مطابق اگر فقط 10 فیصد سعودی اعلی تعلیم اور تجربہ حاصل کر کے وطن واپس آ جائیں تو بہت سے اعلی عہدوںپر براجمان غیر ملکیوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور ادارے انہیں فارغ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
    سعودی مارکیٹ میں غیرملکیوں کی شرح تناسب کو اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ یہاں پر پاکستانی غیر ملکی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد روبہ عمل ہے،جو یہاں محنت مزدوری کر کے اپنا رزق حاصل کر رہی ہے لیکن موجودہ ترجیحات کے باعث ان کا یہاں مزید قیام مشکل تر ہوتا جا رہاہے جبکہ وطن عزیز میں بھی ان کے لئے روزگار کے مواقع اتنے زیادہ نہیں۔بد قسمتی سے ہماری حکومتوں کی پہلی ترجیح ہمیشہ سے ہی ان کے ذاتی مفادات رہے ہیں اور انہوںنے ملکی وسائل کو جس بے دردی کے ساتھ لوٹا ہے اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے،مفاد عامہ میں بننے والے منصوبے بھی آخر کار نقصان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ پہلو باعث اطمینان ہے کہ اگر سعودی مارکیٹ سے ان ہنر مندوں ، محنت کشوں کا انخلاء ہوتا ہے اور سعودی عرب سی پیک منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری بھی کرتا ہے تو ایک طرف نہ صرف پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہو ں گے بلکہ دوسری طرف وہ افرادی قوت جو سعودی عرب سے فارغ ہوکر پاکستان رہائش پذیر ہو گی،وہ ان منصوبوں پر سعودی عرب کی پہلی ترجیح بھی ہوگی۔پاکستان کا کردار اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ماسوائے لاجسٹک سپورٹ کے اور کیا بچتا ہے؟رہی سہی صنعت ،جو توانائی اور حکومتی پالیسیوں کے باعث شدید بحران کا شکار ہے،اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی؟حکومتی بزرجمہروں نے کبھی اس حوالے سے پاکستانی بن کر سوچا ہے؟یا مقامی افرادی قوت کو آنے والے وقت میں صرف چین کا مددگار ہی بننا ہو گا؟ اور سب سے اہم بات کہ کیا لاجسٹک سپورٹ کی مد میں حاصل ہونے والی سرمایہ کاری کسی بھی صورت ٹیکنالوجی و ہنر مندی کا نعم البدل ہو سکتی ہے،جس کے لئے پاکستانی افرادی قوت دنیا بھر میں معروف ہیں۔
 
مزید پڑھیں:- - - - -سیاسی دنگل شروع ہوگیا

 

شیئر:

متعلقہ خبریں