Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے جرائم پر جرمنی اور فرانس کی خاموشی

 عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں سائرن بجانے کا اہتمام معمول کا عمل نہیں ہوسکتا۔ خطے کے حالات کشیدہ ہیں۔ ایرانی ، سعودی عرب کی گھنی آبادی والے شہروں پر بیلسٹک میزائل حملے حوثیوں کے ذریعے کروا رہے ہیں۔ یہ حملے ہر ایک کو درپیش انتہائی خطرات کا پتہ دے رہے ہیں۔
ایرانی نظام کی جانب سے منظم تشدد کے رواج کے باوجود جرمنی اور فرانس کی حکومتیں ایران کی برپا کی ہوئی جنگوں پر خاموشی اختیار کرنے کا پرچار کررہی ہیں۔ یہ دونوں حکومتیں ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے کی پاسداری کا دم بھر رہی ہیں۔جرمن چانسلر نے پہلی بار صاف الفاظ میں امریکہ سے ہٹ کر عسکری دفاعی پالیسی کے فروغ کی بات کی ہے۔ انہوں نے ایرانی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے کہا کہ انکا ملک جرمنی ایران کیساتھ معاہدے کا بھی پابند ہے اور تعاون کا بھی۔ فرانس کے صدر نے بھی امریکہ سے علیحدگی کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ ان دونوں رہنماﺅں نے ایرانی نظام کے ساتھ تجارتی لین دین کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دونوں اپنے دائمی حلیف امریکہ سے بڑی حد تک خود مختاری کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کی مخالفت کرنے والوں نے کئی تصورات اجاگر کئے ہیں۔ یہ بظاہر مثبت لگتے ہیں مگر حقیقت میں انتہائی منفی ہیں۔ ایران کیساتھ ایٹمی معاہدہ فرانس اور جرمنی کی جانب سے برقراررکھنے کا فیصلہ بظاہر2 آفتوں میں سے ایک چھوٹی آفت کے مماثل لگ رہا ہے۔ ان دونوں کا کہناہے کہ وہ ایران کو مثبت اندازمیں ردعمل دینے اور مثبت سوچ پر آمادہ کرنے کا موقع دے رہے ہیں تاکہ ایران یورپی ممالک سے بازی نہ ہار جائے۔ جرمنی اور فرانس تہران نواز موقف کی دلیل یہ کہہ کر دے رہے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع نہ کرے اور اپنی سیاست کے اندر حکمت اور فراست کے عنصر کو غالب رکھے۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے اس فراخدلانہ رویئے سے کیا وہ کچھ حاصل ہوگا جس کی یہ امید ظاہر کررہے ہیں؟آیا جرمنی اور فرانس ایران کو عسکری یا اقتصادی اعتبار سے ایٹمی اسلحہ سازی کے اقدام سے روکنے کی کوئی گارنٹی دے سکتے ہیں؟ جواب نفی میں ہوگا۔ مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ دونوں ملک ایران کے بڑے مذہبی پیشوا کو ایک طرح سے غلط اشارے دے رہے ہیں۔ انہیں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف موقف کے سلسلے میں برحق ہیں اور انہیں اپنی علاقائی پالیسی میں اصلا ح کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ فرانس اور جرمنی کے رہنماﺅں کا یہ پیغام ہی خطے میں مزید انارکی اور جنگوں کا باعث نہ بن جائے۔
ہوسکتا ہے کہ امریکی صدر کا لہجہ لچکدار نہ ہو لیکن وہ اس سلسلے میں حق پر ہیں کہ ایران کیساتھ ایٹمی معاہدہ جدید تاریخ کا بدترین سودا ہے۔ اس میں ترمیم ضروری ہے۔ اس معاہدے پر دستخط کے بعد اور دوران جتنی جنگیں، تشدد اور خطرات مشرق وسطیٰ کو لاحق ہوئے ویسے تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملتے۔ ایرانی نظام کو جب یہ یقین ہوگیا کہ بڑی طاقتیں اسکے احتسا ب سے دستبردار ہوگئی ہیں تو اس نے وہ سب کچھ کیا جسے تاریخ نے دیکھا۔یورپی ممالک شام میں زبردست جنگوں پر مرہم رکھنے کیلئے چند خیمے اورچند کمبل کے عطیات کو کافی سمجھ رہے ہیں۔ انکی یہ سوچ بالکل غلط ہے۔خطے میں طاقت کا توازن خراب ہونے کی صورت میں شام میں مزید مسائل پیدا ہونگے۔
کیا جرمنی اور فرانس کے رہنما ہمیں عراق، شام ، غزہ اور یمن میں ایران کی کارستانیوں کے حوالے سے حل کا کوئی تصور پیش کرسکتے ہیں؟ یہ اسلحہ فروشی کے سوا کچھ نہیں کررہے ۔ یہ افواج بھیجنے پر آمادہ نہیں۔ یہ خفیہ معلومات دینے پر راضی نہیں۔ یہ لاجسٹک خدمات مہیا نہیں کرنا چاہتے۔ فرانس واحد ملک ہے جس نے شام میں علامتی فورس بھیجی ہوئی ہے جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے لہذا یورپی ممالک کا ایرانی نظام کے آگے جھکنا پریشان ایرانی عوام اور خطے کے ان ممالک کے حساب پر ہورہا ہے جو سب کے سب ایران کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور اب ان ممالک کے پاس وسیع البنیاد جنگ کی تیاری کے سوا کوئی اور حل نہیں رہ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: