Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقی القدس ہمارا ہے

امل عبدالعزیز الہزانی ۔ الشرق الاوسط
امریکہ نے القدس میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کیلئے 14مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔ مذکورہ تاریخ پر سفارتخانہ منتقل کردیا گیا۔ اس موقع پر امریکی صدر کے مشیر ، انکی بیٹی، داماد اور وزیر خزانہ ، کانگریس کے 12ارکان اور افریقہ، یورپ ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے 32ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ امریکی صدر نے القدس کے حوالے سے مسلم دنیا کو 2مرتبہ جھٹکے دیئے۔ پہلے تو گزشتہ برس کے اختتام پر سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے دکھ پہنچایا اور پھر سال رواں کے مئی میں سفارتخانہ باقاعدہ منتقل کرکے اذیت پہنچائی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ المناک خبر ہے۔ اشتعال انگیز اقدام ہے۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم مشرقی القدس کے حوالے سے واضح موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ موقف یہ ہے کہ مشرقی القدس عربوں کا ہے اور اس حوالے سے عربوں کا موقف غیر متزلزل ہے۔
فلسطینی امریکی اقدام کےخلاف مظاہرے کررہے ہیں، کرینگے۔ بعض اسرائیلی بھی اس کےخلاف ہیں۔ انکی سوچ یہ ہے کہ اس قسم کے اقدام سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوگا۔ قیام امن کے مواقع متاثر ہونگے۔ اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے ہر طرح کے امکانات سے نمٹنے کی تیاریاں کررکھی ہیں۔
موقع معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے۔ ٹرمپ پہلے امریکی صد ر ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ القدس سفارتخانہ کی منتقلی کا عزم ظاہر کیا بلکہ عزم کوعملی جامہ بھی پہنا دیا۔
امریکی صدر کو امن عمل کے حوالے سے اقدام کے سنگین خطرات کا احساس ہے تاہم وہ اسرائیلی موقف کو تقویت پہنچانے اور عرب دنیا میں اسرائیل کے تحفظ کے جذبے سے بھی سرشارہےں۔ القدس امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹیں حقیقی اور موثر درجے کی ہیں۔ سب سے اہم القدس میں سفارتخانے کے محل وقوع کے انتخاب کا ہے۔ یہ شہر دہرا ہے۔ یہاں عمارتوں کا جنگل ہے۔ بعض مقامات تاریخی ہیں۔ بعض کے مالک دینی ، اسلامی یا عیسائی ادارے یا افراد ہیں۔ امریکی سفارتخانے کو اس قسم کی عمارتو ں کے درمیان بنانا سیکیورٹی پوائنٹس کے حوالے سے بعید از امکان ہے۔
مسلم و عیسائی عربوں کو یقین ہے کہ مشرقی بیت المقدس انکا ہے۔ مسجد اقصیٰ اور القیامہ گرجا گھر مشرقی القدس میں ہی واقع ہیں۔ عربوں کی گفتگو کا محوریہی مشرقی القدس رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔
جب سے ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تب سے کسی کے بھی ذہن میں یہ خیال نہیں گزرا تھا کہ وہ مشرقی القدس میں مسلمانوں اور عیسائیوں سے جھگڑا کریں گے کیونکہ انہیں جگہ کے تقدس کا احساس ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اسکے سنگین نتائج کا بھی علم ہے۔ امریکہ نے اپنے سفارتخانے کیلئے مغربی القدس کے ایک دور دراز مقام کا انتخاب کیا جو 1949ءسے اسرائیل اور اردن کے درمیان اسلحہ سے خالی علاقہ متعین ہے۔ 1967ءمیں عربوں کی شکست کے بعد یہ علاقہ مقبوضات میں شامل ہوا۔
اصولاً امریکہ اپنے سفارتخانے کےلئے کسی بھی جگہ کے انتخاب کا حق رکھتا ہے تاہم دنیا کی طاقتور ترین ریاست ہونے کے ناتے القدس سفارتخانے کی منتقلی نے امریکہ کی جانبداری پر مہر لگادی۔
عربوں کو 2باتیں معلوم ہونی چاہئیں کہ ٹرمپ اپنا فیصلہ واپس نہیں لیں گے۔ دوسرے یہ کہ اسرائیل کے ساتھ انکے خصوصی تعلقات ہیں۔ اگر انہوں نے اس طرف ایرانی اثر و نفوذ سے بچانے کیلئے جرا¿ت مندانہ اقدام کیا ہے تو دوسری جانب انہوں نے اپنے اتحادی اسرائیل کی خاطر اپنا سفارتخانہ القدس منتقل کرلیا۔
عرب اب کیا کرسکتے ہیں؟ ایک تو یہ ہے کہ ایران سے متعلق امریکہ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کا خیر مقدم کریں اور اس سلسلے میں گرما گرمی سے کام نہ لیں۔ جہاں تک مغربی القدس میں امریکی سفارتخانہ کھولنے کا معاملہ ہے تو بہتر ہوگا کہ عرب غیض و غضب کی کیفیت سے باہر آئیں اور امن مذاکرات کا سلسلہ ٹھوس بنیادوں پر شروع کریں۔ امریکی صدر نے سفارتخانہ منتقل کرکے غیر معمولی جرا¿ت کا مظاہرہ کیا ہے تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ وہ سخت جان ہیں۔ بڑے سے بڑا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ فلسطینیوں اور عربوں کو ٹرمپ کی اس خاصیت سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔ اس قسم کے مواقع بار بار نہیںآتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: