Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسد اطہر کی منتقلی، تاریخ کی 4مذموم کوششیں

ونوں رات کے وقت کھدائی کرتے،مٹی تھیلے میں بھر کر دونوں جنت البقیع کی زیارت کے نام پر وہاں چھوڑ آتے
 ** *  * *

    عبیدی حکومت کے چھٹے حکمراں الحاکم کے عہد میں کچھ شرپسند بدطینت رافضیو ں نے بادشاہ کو سبز باغ دکھائے کہ دنیا بھر کے مسلمان مدینہ منورہ  پروانہ وار پہنچتے ہیں، کیوں نہ مصر میں گنبد خضرا جیسا عالیشان گنبد تعمیر کیا جائے اور پھر پیغمبر اسلام اور حضرت ابو بکرالصدیق  اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم  کا جسد خاکی مدینہ سے نکال کر نئے گنبد میں منتقل کردیا جائے۔ ایسا ہوگا تو لوگ  زیارت کیلئے مدینہ منورہ کے بجائے مصر آیا کریں گے اور تمہارا نام دنیا میں روشن ہوجائیگا اور اہل مصر کی عزت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ الحاکم مشیرو ںکی عیاری کے چکر میں آگیا ۔ اس نے مصر میں ایک فقید المثال عمارت اور شاندار گنبد غیر معمولی دولت خرچ کرکے تعمیر کرایا۔ جب وہ بیت العنکبوت (مکڑی کا گھر) پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو اس نے اپنے ایک معتبر ساتھی ابو الفتوح کو  ناپاک پروگرام نافذ کرنے کیلئے مدینہ منورہ بھیجا۔ مدینہ سے پیغمبر اسلام محمد مصطفی کے جسد مبارک کو مصر منتقل کرنے کا تذکرہ اس قدر کثرت سے کیا گیا کہ ہر کس و ناکس  بادشاہ کے مذموم عزائم سے واقف ہوگیا۔ ابو الفتوح جب مدینہ منورہ پہنچا تو اسکی ملاقات عمائدین شہر سے ہوئی۔ ان میں سے ایک قاری نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 12تلاوت کی جس کے معنیٰ  یہ ہیں:
    ’’اور اگر وہ لوگ عہد کرلینے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے سرغنوں کو قتل کردو۔ بے شک انکی قسمیں باقی نہیں رہیں  ،تم ان سے لڑائی کیوں نہیں کرتے جنہوں نے قسم توڑ دی اور اللہ کے رسول() کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے پہل کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ  اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ تم ان سے ڈرو اگر تم ایماندار ہو۔‘‘
    سورۃ توبہ کی ان آیات کی تلاوت نے پورے ماحول کو گرما دیا ـحاضرین میں  ایک عجیب و غریب قسم کا ولولہ پیدا ہوگیا اور وہ ابو الفتوح کو کیفر کردار تک پہنچانے پر تیار ہوگئے تاہم مدینہ طبیہ کے تقدس کو پیش نظر رکھ کر قتل کے اقدام سے باز رہے۔
    ابو الفتوح یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا ـکہنے لگا کہ  اللہ کی قسم! اگر میرا سر قلم کردیا جائے تب بھی مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا مگر میں قبر مبارک کی طرف برے ارادے سے ہاتھ تک نہیں اٹھاؤنگا۔ کہتے ہیں کہ اس رات ایسی تیز و تند آندھی آئی جس سے محسوس ہوتا تھا کہ کرہ ارض اپنی جگہ سے ہٹ کر کہیں اور پہنچ گیا ہے۔
    ابو الفتوح اس عبرتناک منظر کو دیکھ کر کانپ اٹھا اور اس کے دل سے بادشاہ کے جبر کا خیال کافور ہوگیا۔ اس نے صدق دل سے اس ناپاک پروگرام سے توبہ کرلی اور خاموشی سے مصر واپس چلا گیا۔

       دوسری کوشش :
     شیخ شمس الدین  صواب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک مخلص دوست جن کے امیرِ مدینہ سے گہرے تعلقات تھے میرے پاس آئے ۔ کہنے لگے کہ حلب کے رافضیوں کی ایک جماعت امیر کیلئے قیمتی سامان اور اعلیٰ درجے کے تحائف لیکر پہنچی ہے۔ حلب کے رافضیوں نے امیر کو ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اجسام  نکال کر لیجانے پر رضامند کرلیا ہے۔  امیر موصوف مذہبی بے حسی کے باعث ان کے چکر میں آگیا ہے او رانہیں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہما  کے اجسام قبر سے نکال کر لیجانے کی اجازت دیدی ہے۔  شیخ شمس الدین کہتے ہیں کہ یہ سن کر میرے حواس اڑ گئے۔ میں ابھی اس فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک امیر کا قاصد مجھے بلانے آگیا۔ میں حاضر خدمت ہوا ۔امیر نے حکم دیا کہ آج رات کچھ لوگ مسجد میں آئیں گے تم ان کیلئے دروازہ کھول دینا اور انکے کام میں مداخلت نہ کرنا۔
    شیخ شمس الدین کہتے ہیں کہ میں ’’بہت اچھا جناب‘‘ کہہ کر واپس آگیا مگر سارا دن حجرہ مقدسہ کے پاس بیٹھا روتا رہا۔ ایک لمحہ کیلئے بھی میرے آنسو نہ تھمے۔ کسی کو حقیقت حال کا پتہ نہیں تھا کہ میں کس مصیبت سے گزر رہا ہوں۔
    شیخ شمس الدین بتاتے ہیں کہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جب لوگ چلے گئے تو میں نے دروازے بند کردیئے۔ کچھ دیر بعد باب السلام جو امیرِ مدینہ کے گھر کے قریب تھا اسی طرف سے وہ لوگ آئے۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ میں نے امیر مدینہ کے حکم کے مطابق دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر آنا شروع  ہوئے۔ انکی تعداد 40تھی۔ وہ لوگ پھاوڑے، کدال، ٹوکریاں اورکھودنے کے دیگر آلات اور روشنی کیلئے شمع ساتھ لیکر آئے تھے۔
    شیخ شمس الدین بتاتے ہیں کہ میں حیرانی و پریشانی کے عالم میں ایک طرف بیٹھا رونے اور سوچنے لگا کہ یا اللہ! تُو قیامت برپا کردے تاکہ یہ بد طینت لوگ اپنے عزائم سے باز رہیں۔
    یہ لوگ مسجد نبویؐ میں داخل ہوکر حجرہ مقدسہ کی طرف بڑھتے جارہے تھے۔ ابھی یہ منبر شریف تک بھی نہ پہنچ پائے تھے کہ سازو سامان سمیت سب کے سب زمین میں دھنس گئے۔
    یہ واقعہ سیدنا عثمان  بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توسیع کے پہلے مغربی ستون کی جگہ کے قریب پیش آیا تھا۔
    امیرِ مدینہ ان لوگوں کی واپسی کا انتظار کررہا تھا مگر زیادہ دیر گزر جانے پر اس نے مجھے طلب کیا اور مجھ سے پوچھا کہ وہ لوگ نہیں آئے؟تو میں نے کہا کہ وہ لوگ آئے تھے۔ امیر نے دریافت کیا کہ تو پھر کیا ہوا۔ میں نے جو ماجرہ دیکھا تھا لفظ بہ لفظ سنادیا مگر امیر مدینہ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ انہیں زمین نگل گئی ہوگی۔ امیر نے ذرا تیز و تند لہجے میں کہا :ہوش والی بات کرو۔ میں نے کہا کہ جناب! آپ تشریف لے چلیں اور اپنی آنکھوں  سے دیکھ لیں۔ ابھی دھنسنے کے آثار اور کچھ کپڑے وغیرہ نظر آرہے ہیں۔ امیر نے مجھے سخت تنبیہ کی کہ اس واقعہ سے کسی کو آگاہ نہ کرنا ورنہ تمہاری گردن اڑا دی جائیگی۔
    احمد ذکی پاشا المعروف بہ شیخ العرب  مجلہ الہلال شمارہ نمبر 1920 جلد نمبر 27میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یہ  واقعہ جمال الدین المطری اور جمال الدین الاسنوی سے منقول ہے۔
     احمد ذکی پاشا کا کہنا ہے کہ جن مؤرخین نے نور الدین اور انکے محاصرین اور جانشینوں کے حالات قلمبند کئے ہیں، انہوں نے اس سنجیدہ واقعہ کا کوئی بھی ذکر نہیں کیا اس لئے ان کے خیال میں یہ واقعہ ایک بے بنیاد جھوٹی اور من گھڑت داستان سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔
    تاہم ابواب تاریخ المدینہ کے مصنف  علی حافظ لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ واقعہ تھوڑی بہت تاریخی اہمیت ضرور رکھتا ہے۔ مدینہ منورہ کی ایک مشہور شاہراہ کا نام سقیفہ الرصاص ہے۔ یہ مسجد نبوی شریف سے جنوب مغرب میں باب السلام کے قریب واقع ہے۔ سقیفہ الرصاص  سیسے کا سائبان کہلاتا ہے۔
    ایک اور مقام دار الضیافہ بھی مسجد نبوی ؐکے شمال میں باب مجیدی کے قریب ہے  اور میں انکے جائے وقوع کو  اچھی طرح سے پہچانتا ہوں۔ اگرچہ شہر کی سڑکوں کو وسعت دینے کی خاطر ان کو اب اس جگہ سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن مدینہ منورہ کے باشندوں کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ سقیفہ الرصاص اس مقام  کیلئے معروف ہے جہاں حجرہ مطہرہ کے چاروں طرف بنائی گئی خندق میں سیسہ ڈالا گیا تھا۔ دارالضیافہ وہی جگہ ہے جہاں سلطان نور الدین نے مدینہ منورہ کے باشندوں کو مدعو کیا تھا تاکہ مذکورہ دونوں مراکشی باشندوں کی شناخت ہوسکے ۔ بعد میں یہ جگہ غریبوں کی آسائش کیلئے قائم کردی گئی۔
    احمد ذکی پاشا نے اپنے بیان میں مذکورہ حقائق کا تسلسل نظر اندا ز کردیا ہے۔ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ اس بات کو صیغہ راز میں رکھا گیا ہو اور جن مؤرخین نے سلطان نور الدین کے حالات قلمبند کئے ہیں انہیں اسکے بارے میں کوئی علم نہ ہوسکا ہو۔ المطری اور الاسنوی کے بیانات میں اختلاف فطری امر ہے کیونکہ دونوں مؤرخین نے واقعات قلمبند کرتے وقت ایک جداگانہ طرز اختیار کیا ہے۔
     تیسری کوشش:
    ُُُیہ کوشش 557 ھ  مطابق 1162ء کے دوران  سلطان نورالدین  زنگی کے دور میں کی گئی۔ اسکے کرتا دھرتا نصرانی تھے۔ سلطان نور الدین زنگی  رات کو تہجد پڑھ کر سو گئے تھے۔  خواب میں نبی کریم کو دیکھا ۔ آپ2 افراد کی طرف اشارہ کرکے کہہ رہے تھے کہ  مجھے بچاؤ، مجھے ان دونوں سے نجات دلاؤ۔ نور الدین زنگی گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ وضو کیا ، نماز پڑھی اور پھر سو گئے۔ انہوں نے وہی خواب پھر دیکھا، بیدار ہوئے، نماز پڑھی اور سو گئے۔ نور الدین زنگی نے تیسری بار پھر وہی خواب دیکھے تو اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اب سونے کی کوئی گنجائش نہیں۔ نور الدین زنگی کا ایک خداترس وزیر جمال الدین الموصلی تھا۔انہوںنے اس کے پاس پیغام بھیجا اور اسے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے مطلع کیا۔  یہ سن کرجمال الدین نے سلطان سے کہا اب تمہارے یہاں بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ فوراً مدینہ منورہ کا رخ کرو اور اپنے خواب کو صیغہ راز میں رکھو۔ وزیر جمال الدین انکی رفاقت میں مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ وزیر نے مسجد میں اہل مدینہ سے ملاقات کی ۔انہوں نے کہا کہ سلطان نور الدین زنگی مسجد نبوی شریف کی زیارت کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔ سلطان نور الدین  زنگی مدینہ منورہ پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے خواب کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا۔ پہلی رات انہوں نے اپنے گھر میں گزاری ۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ گتھی کو سلجھانے کیلئے کیا تدبیر اختیار کی جائے؟بالاخر طے پایا کہ شہر کے تمام لوگوں کو دعوت دی جائے اور ان میں انعامات تقسیم کئے جائیں۔ اس طرح مطلوبہ اشخاص کی پہچان کرکے انہیں گرفتار کرلیا جائے چنانچہ وزیر نے اعلان کرایا کہ بادشاہ سلامت آئے ہوئے ہیں۔ وہ اہل مدینہ کو انعامات سے نوازنا چاہتے ہیں لہذا ہر آدمی آئے اور سلطان کی سخاوت سے فیض یاب ہو۔ لوگوں نے آنا شروع کیا۔ شاہی تحائف لیکر رخصت ہونے لگے۔ بادشاہ تحفہ دیتے وقت ہر آدمی کو گہری نظر سے دیکھتا اور خواب میں دیکھی شکلوں کو تلاش کرتا۔ شہر کے چھوٹے بڑے، امیر غریب سب آئے۔ سب نے شاہی تحائف وصول کئے مگر جن کی جستجو سلطان نور الدین زنگی کو تھی وہ شکلیں نظر نہ آئیں۔ آخر میں سلطان نور الدین زنگی کے بار بار سوال پر لوگوں نے بتایا کہ بس مراکش کے 2شہری باقی بچے ہیں وگرنہ سب آچکے ہیں۔  یہ لوگ کسی سے کچھ نہیں لیتے۔ یہ صالح لوگ ہیں۔ مالدار ہیں۔خیر خیرات بہت زیادہ کرتے ہیں۔ یہ سن کرسلطان کاسینہ کشادہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو لایا جائے۔ سلطان نور الدین زنگی نے ان دونوں کو دیکھا تو وہ اسی شکل و صورت کے تھے جن کی شکلیں انکے خواب میں آئی تھیں اور رسول کریم نے ان سے نجات دلانے کی فریاد کی تھی۔ سلطان نور الدین زنگی نے انہیں دیکھتے ہی دریافت کیا کہ تم لوگ کہاں کے ہو؟
    انہوں نے کہا کہ ہم مراکش سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں حج کیلئے آئے ہوئے ہیں۔ ضرورت کی وجہ سے رسول کریم کے پڑوس میں رہ رہے ہیں۔ یہ ہمیں پسند ہے۔  سلطان نور الدین زنگی نے کہا کہ سچ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ تاہم  ان دونوں نے سکوت اختیار کیا۔ سلطان نور الدین زنگی نے پوچھا کہ انکا گھر کہاں ہے؟  بتایا گیا کہ حجرہ شریفہ کے قریب رباط میں ہے۔ مدینہ کے لوگوں نے ان دونوں کی بیحد تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اللہ والے لوگ ہیں۔ اکثر روزے سے ہوتے ہیں۔صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں۔ بقیع الغرقد اور قباء کی زیارت کیلئے بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ نور الدین زنگی نے ان دونوں کو پکڑ لیا اور اپنے گھر لے آئے۔  سلطان نور الدین زنگی  بہ نفس نفیس انکے گھر کا چکر لگاتے رہے۔ اچانک انہیں گھر میں ایک چٹائی نظرآئی۔ انہوں نے چٹائی اٹھائی تو اسکے نیچے  سرنگ کھدی ہوئی نظر آئی۔ سرنگ بہت گہری اور بہت دور قبر مبارک تک پہنچ گئی تھی۔  لوگ یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔ سلطان نور الدین  زنگی نے ان دونوں سے کہا کہ تم لوگ مجھے اپنی حقیقت  بتاؤ۔ انہوں نے انہیں زدوکوب کیا۔ اس پر دونوں نے تسلیم کیا کہ وہ عیسائی ہیں ۔ انہیں عیسائی سلاطین نے  مراکش کے حاجیو ں کے قافلے میں شامل کرکے بھیجا تھا۔ انہیں خوب دولت دی تھی اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ نبی کریم کا جسد  اطہر کسی ترکیب  سے چوری کرکے لے آئیں۔  دونوں رات کے وقت کھدائی کرتے۔ مٹی تھیلے میں بھر کر دونوں جنت البقیع کی زیارت کے نام پر وہاں چھوڑ آتے۔ دونوں ایک طویل مدت تک اسی طرح قیام پذیر رہے۔  پھر جب  حجرہ مبارکہ کے قریب پہنچ گئے تو بجلی چمکی  اور زبردست ارتعاش پیدا ہوا۔ ایسا لگا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ جائیگا۔ سلطان نور الدین  انکی ایمان سوز باتیں سن کر غصے سے بھڑک اٹھے۔ انہوں نے انہیں عبرتناک سزا دینے کا حکم جاری کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ سلطان نور الدین زنگی پر ایک عجیب و غریب رقت آمیز کیفیت بھی طاری تھی۔ انہیں یہ سوچ کر اپنے ا وپر فخر محسوس ہونے لگا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان خدمت پر انہیں مامور کیا اور ا نہیں اس قابل سمجھا کہ وہ یہ کام انجام دیں۔
      ان دونوں کو قتل کرانے کے بعد سلطان نے حجرہ مبارکہ کے چاروں طرف ایک مضبوط دیوار بنائی جس کی بنیادیں پانی تک کھدوائی گئیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار سطح زمین تک بنوادی،پھر مسجد کی چھت تک دیوار بنوائی جس میں دروازہ نہیں رکھا تاکہ دشمنوں کی ممکنہ چیرہ دستیوں سے قبریں محفوظ رہیں۔
     چوتھی کوشش: ۔
    مشہور سیاح ابن جبیر ابو الحسین  محمد بن احمد( متوفی  614ھ)  نے تحریر کیا ہے کہ شام کے عیسائیوں نے نبی کریم کا جسد اطہر اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہم کے اجسام مدینہ منورہ سے منتقل کرنے کا مذموم پروگرام بنایا تھا تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب نازل ہوا اور انکے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔
مزید پڑھیں:- - - -  -نبی کریم کی قبر مبارک کی منتقلی ، حقیقت کیا ہے؟

شیئر: