تسنیم امجد ۔ریاض
وہ اسکول کے گیٹ پر صبح صبح پہنچ جاتی۔اسے کوئی اندر نہیں جانے دیتا تھا۔گیٹ کیپر اسے پگلی کہہ کردھتکارتا اور گیٹ بند کر دیتا۔ اسکول کی سینیئرلڑ کیا ں اسے جانتی تھیں کیو نکہ اس نے انہیں میتھس جیسا مشکل مضمون پڑ ھا یا ہواتھا ۔وہ گیٹ کیپر سے کہتیںکہ انہیں اندر آنے کیو ں نہیں دیتے ۔یہ کسی کو کچھ نقصان نہیں پہنچا تیں۔خواہ مخواہ انہیں تنگ کرتے ہو ۔بے ضرر ہیں یہ ،لیکن وہ کہتا کہ مجھے آ رڈر ہے۔وہ چھٹی تک وہیں رہتی اور پھر گھر آ جا تی۔تھوڑا سا آ رام کرتی اور پھر اپنی کتا بیں لے کر گھر سے با ہر دہلیز پر بیٹھ جا تی۔بقول اس کے ،وہ صبح کا لیکچر تیار کر رہی ہے ۔
اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔ کتابِ ما ضی کایہ ورق اس وقت رقم کیاگیا تھا جب ہم بھی اسی اسکول میں پڑھتے تھے ۔اکثر سناکرتے تھے کہ وہ بہت محنتی ٹیچر تھیں۔انہیں اپنے پیشے سے بے انتہا لگا ﺅ تھا ۔جیو میٹری کے مسئلے بہت ہی ا حسن انداز میں سمجھا نا جا نتی تھیں۔ان کے بارے میں معلومات حا صل کیں تو معلوم ہواکہ انہیں اپنے شو ہر کی جا نب سے کچھ مسئلہ تھا۔اکثر وہ سٹاف روم میں آ نکھیں مو ندے بیٹھی نظر آ تیں ۔کسی سے بات نہ کرتیں ۔شا ید اس لئے کہ بقول شاعر:
زندگی تیرے سوالات سے ڈر لگتا ہے
چشمِ پر نم تیری بر سات سے ڈر لگتا ہے
کلاس میں ایک دن پڑ ھاتے ہو ئے وہ کہنے لگیں کہ” میرے لئے یہ زمین چپٹی ہے ،کون کہتا ہے گول ہے۔“اس کے بعد وہ لیکچر وہیں روک کر کلاس سے نکل گئیں۔چھٹی ہو ئی تو سب نے ایک ایمبو لینس اسکول کے گیٹ سے اندر آ تے دیکھی ۔اگلے روز معلوم ہوا کہ میڈم نبیلہ کو کچھ ہو گیا تھا ۔وہی آ خری جملہ کہ میرے لئے یہ زمین چپٹی ہے،کون کہتا ہے گول ہے،بار بار دہرا رہی تھیں ۔ڈاکٹروں نے اسے ”ذہن پر شدید صدمہ“ قرار دیا اور کچھ دوائیں دے کر فا ر غ کر دیا ۔ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں نارمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا ۔پھر کسی نے یہ تکلیف برداشت نہیں کی کہ انہیں کہیں اور لے جا کر بھی چیک اپ کروا دیتیں ۔ان کے بیٹے تو کہیں دور ہا سٹل میں تھے جبکہ بیٹی دادی کے پاس تھی ۔وہ بھی اب 17 کی ہو چکی تھی ۔
بیٹی کا کہنا تھا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا،ماں کو اسی حالت میں دیکھا ۔ہمارا ددھیال جا گیر دارانہ ذہن کا ہے ۔بابا کا کام صرف رعب ڈالنا تھا ۔کام سے واپسی پر وہ سخت ٹینشن میں ہو تی تھیںکیو نکہ بابا خود سے پانی بھی نہیں پیتے تھے۔ماما ہی ان کے سب کام کرتی تھیں ۔گھر کا سب کام اور بابا کی ضروریات کا خیال رکھنے کے بعد وہ خود پڑ ھنے بیٹھ جا تیں ۔وہ اکثر کہتیں کہ میں نے جاب گھر کے حالات سے فرار کے لئے کی ہے ورنہ ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے شو ہر کے گھر میں نہیں بلکہ کسی مہاراجہ کے دربار میںحا ضر ہو ں ۔میرے سسرال میں ہر ایک کے گھر میںساس نے ملا زمہ رکھوا کے دی ہو ئی ہے لیکن میرے لئے مما نعت تھی ۔شو ہر کو مجھ سے بہت سی امیدیں ہیں ۔وہ چا ہتا ہے کہ گھر بھی صاف رہے ،اس کے دو ستو ں کے لئے نت نئے کھانے بنیںاور میری تنخواہ میں سے ہی یہ سب کچھ ہو ۔یہ سب بتاتے ہوئے ان کی بیٹی رو ہا نسی ہو رہی تھی ۔کہنے لگی ان کی زبان پر یہ جو جملہ ہے کہ” میرے لئے یہ زمین چپٹی ہے ،کون کہتا ہے یہ گول ہے ؟ یہ ان کاآ خر ی لیکچر تھا ۔اس دن انہوں نے کہا تھا کہ میں عورت ہو ں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ مرد اس زمین سے ہی عورت کو کبھی بھی دھکا دے کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے ۔بے چاری کا دماغ ایسا گھوما کہ وہی اس کی زبان پر چڑھ گیا۔بابا نے اس دن انہیں صبح ہی صبح خوب سنا ئی تھیں ۔
قارئین! عورت کے لئے شو ہر کا رشتہ سب رشتوں پر فو قیت رکھتا ہے ۔مرد اس کا ادراک و احساس کیوں نہیں کرتا۔نبیلہ کے شوہر کو کیو ں احسا س نہ ہوا کہ اس کی بیوی کو ذہنی صدمہ اسی کی وجہ سے پہنچا ہے ۔اس نے کیوں اسے اپنی ذمہ داری نہ سمجھا ۔اس کا جواب دہ وہ دنیا میں نہ سہی،روزِ آ خرت توضرور ہو گا ۔مشرقی عورت شوہر سے فرار حا صل کر سکتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتی ۔اس کے سامنے میکے کی لاج اور معاشرے کی تنقید کا ا حساس ہوتا ہے ۔مرد کی زندگی میں تو کئی مو سم ہو تے ہیں لیکن عورت کے لئے ایک ہی مو سم اس کی شان و آن رہتا ہے ۔مرد یہ جا نتا ہے کہ فریق ثانی کا تعاون اس کے لئے کتنا اہم ہے لیکن وہ حقا ئق سے نظریں چرا کر اپنی بر تری ثابت کر نا چا ہتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کی باہر کی دنیا مسا ئل سے بھری ہو تی ہے۔ ایسے میں گھر میں ہو نے والی کھٹ پٹ انہیں کھو کھلا کر دیتی ہے ۔
ازدواجی تعلق کا مو ضو ع عر صہ درازسے زیرِ بحث ہے لیکن اس کا حل نہیں نکا لا جاسکا ۔بظاہر عورت حقوق کی جنگ جیت چکی ہے لیکن اس کی چنگا ریا ں راکھ میں دبی دبی اپنا اثر دکھا تی ہیں۔ وہاں جہا ں کبھی مرد،کبھی ساس ،کبھی نند اور کبھی کو ئی اور مسا بقتی تعلق اپنی جہالت دکھاتا ہے ،مرد کے لا شعور میں اس کی کم تری کا تصور ہی اس سوچ کی جڑ ہے ورنہ کوئی رشتہ کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔دو بول تو اس کے ساتھ پڑھائے گئے ہیں اورزندگی گزارنے کا معاہدہ تو اس کے دستخطو ں سے ہوا ہے ۔پھر کسی کی کیا مجال کہ کوئی مدا خلت کرے ۔شادی جیسے نازک تعلق کو خود غر ضی کے نشتر چبھو چبھو کر ز خمی نہ کیجئے ۔شوہر بیوی کا مان ہوتا ہے ۔دکھ سکھ کا سا تھی اور راز دان ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میںنبیلہ جیسی نہ جا نے کتنی ” پگلیاں“اپنی زندگی کے دن گن رہی ہو ں گی۔ کچھ گھر کے اندر اور کچھ گھر سے با ہر ۔سرد آ ہیں ان کا مقدر ہو ں گی ۔کچھ تو کھلی ہوا میں سا نس لینا چا ہتی ہیںلیکن اس کی بھی انہیں اجازت نہیں ملتی ۔ایسے میں وہ بے اختیار یہی کہے گی:
زندگی سے کیا ڈرنا،آ گہی سے ڈرتی ہو ں
تیرگی کے مو سم میں،روشنی سے ڈرتی ہو ں
پتھروں کی بستی میں،آ ئینے ا ٹھا لائی
کانچ کا نچ جذ بو ں کی، نا ز کی سے ڈرتی ہو ں