Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرناٹک میں کانگریس کی مستعدی

ظفر قطب لکھنؤ
* * * *  *
    انڈین نیشنل کانگریس آج بھی ہندوستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے لیڈروں میں سوجھ بوجھ کی کمی نہیں ہے اگر وہ اسی طرح شروع سے کام کررہے ہوتے جیسا کرناٹک کے حالیہ الیکشن اور نتائج کے بعد کیاہے تو وہ محدود ہوکر اس منزل پر نہ پہنچ جاتی جہاں آج وہ کھڑی ہے۔ماضی میں اس نے اپنوں کونظر اندازکرنے اور ہم خیال پارٹیوں سے دوری بنانے کی جو غلطی کی ہے اگر اس نے کرناٹک میں بھی ایسا کرلیا ہوتا تو جنوبی ہند میں بھی بی جے پی داخل ہوچکی تھی ۔ہندوستان کا جنوبی حصہ ہمیشہ سے فسطائیت سے پاک رہا ہے۔آرایس ایس اور دوسری ہندوانواز جماعتوں اور ان کی متشدد تنظیموں کو کبھی بھی جنوبی ہند کے عوام نے قبول نہیں کیا۔ انہیں وہ ہمیشہ دھتکارتے رہے اس لئے یہ بہت ضروری تھا کہ جنوبی ہند سے ان نظریات کی حامل جماعتوں سے پاک رکھاجاتا۔اس میں کرناٹک انتخاب کے بعد کانگریس کے سینئر لیڈروں نے اہم رول ادا کیااور اگر یہ کہاجائے کہ کانگریس نے اپنے اندر قربانی کے اس جذبہ کو اجاگرکیاہے جو اس کے اندر تقسیم کے وقت موجودتھا۔
    یہ بات اپنی جگہ سوفیصد صحیح ہے کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی میں اب سیاسی پختگی آگئی ہے۔ انہوں نے کرناٹک الیکشن میں نہ صرف جنوبی ہند کے نوجوانوں میں ایک مقام حاصل کیاہے بلکہ پورے ملک کے نوجوان طبقہ کو فسطائیت کے جال میں پھنسنے سے بچالیاہے۔ بی جے پی کے مودی اور یوگی کو جنوب میں اتنی بڑی شکست دیناآسان نہیں تھاکرناٹک میں بی جے پی کا وہ غرور ٹوٹاہے کہ ہم کیسے بھی حالات ہوں اپنی حکومت قائم کرلیں گے جیسا کہ اس نے گوا ،منی پور ،میگھالیہ اور خطے کی ریاستو ں میں کیا ۔ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کافارمولہ بی جے پی کیلئے اتنا موافق ثابت ہوگیا تھا کہ اس نے 2014 کے پارلیمانی الیکشن کے بعد دہلی پر دوبارہ حکمرانی کا خواب دیکھنا شروع کردیاتھا،لیکن اب انہیں اپنی حکمت عملی بدلنی پڑے گی جس کی ابتداء ہوچکی ہے ۔اس کا پتہ کرناٹک میں منھ کی کھانے کے بعد جب پارٹی سربراہ امت شاہ نے دہلی بی جے پی ورکرس کو خطاب کیا تو ان کی تقریر میں وہ درد چھلک کر باہر آگیا ۔انہوں نے اس موقع پر راہل گاندھی کانام تک نہیں لیا ،کسی نے یاد دلائی توبولے اس پر پھر کبھی خیال آرائی ہوگی۔دراصل راہل گاندھی کی قیادت میں بزرگ گانگریسی لیڈروں نے جو رول ادا کیاوہ بہت بڑی سمجھداری تھی ۔کرناٹک انتخاب ختم ہوگیا ووٹوں کی گنتی ہوئی اور نتائج کا اعلان ہو الیکن کانگریس کے سینئر لیڈروں نے کرناٹک نہیں چھوڑا، وہ وہیں ڈٹے رہے ۔انہوں نے جنتادل ایس کے ساتھ متحدہ محاذ قائم کرنے اور حکومت سازی کے سبھی فارمولوں پر غور کیا اور کمارسوامی کو وزیراعلیٰ کا تاج پہنانے کا اعلان کردیا۔یہ ایک ایسا فارمولہ تھا جس پر بی جے پی اور آرایس ایس حیرت زدہ رہ گئے۔کانگریس کے بزرگ لیڈر اور راجیہ سبھامیں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد پارٹی کے کل ہند جنرل سکریٹری اشوک گہلوت ۔پارلیمنٹ میں پارٹی کے لیڈر ملک ارجن کھڑ گے اور کئی سینئر لیڈران بنگلور میں اسمبلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد بھی موجود رہے اور بی جے پی کو ہر طرح سے گھیرتے رہے۔ اسمبلی الیکشن کے مکمل نتائج آنے سے قبل ہی رجحان کی بنیاد پر جنتادل ایس کے ساتھ متحدہ محاذ قائم کرنے کی حکمت عملی تیار کرلی تھی۔ اسی بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اورجنتادل ایس کے ممبران کی فہرست تیار کرکے حکومت سازی کا د عویٰ پیش کردیا۔ بی جے پی اور آرایس ایس کی سمجھ سے یہ بات پرے تھی کانگریس وزارت اعلیٰ عہدہ چھوڑدے گی لیکن سینئر کانگریسیوں نے کمار سوامی کی قیادت میں نئی حکومت کا فارمولہ اسی وقت تیار کرلیا تھا جب ووٹ شمار ی کے رجحان آنے لگے تھے۔کانگریس کے اس فارمولہ کو تو تباہ کرنے کی کوشش ریاستی گورنر وجوبھائی والانے کی اور انہوں نے سب سے بڑی پارٹی کے فارمولہ کو قبول کرکے یدورّپا کو حکومت سازی کی دعوت دے دی گورنر نے بالکل وہی طریقہ اختیار کیا جیسا کہ بی جے پی نے گوا میں چاہاتھالیکن اس بار کانگریس خاموش نہیں بیٹھی ان کے سینئر لیڈروں نے نئی حکمت عملی تیار کی جس میں سب سے پہلے اپنے ممبران اسمبلی کو متحد رکھنا شامل تھا۔ان لیڈروں نے نہ صرف کرناٹک میں دن رات ایک کردیا بلکہ سپریم کورٹ میں اس معاملہ کو پیش کردیا اس میں چدمبرم ،ابھیشیک منو سنگھوئی اور کپل سبل جیسے بڑے لیڈروں نے اہم رول ادا کیا۔ایک اور گروپ ایسا تھا جو کانگریس اور جنتادل ایس پر مشتمل تھا اس نے بنگلور میں رک کر کامیاب ممبران اسمبلی سے برابر رابطہ رکھا اور انہیں ہر طرح سے آئین اورجمہوریت کے حوالے سے اپنا وقاربلند رکھنے  کی ہمت افزائی کی۔انہیں یہ باور کرایا کہ جمہوریت میں پیسہ کچھ معنی نہیں رکھتا اگر سیاست میں زیادہ دن رہناہے تو اپنی ایمانداری کا ثبوت دیجئے ورنہ پیسے سے بکنے والے سیاستدانوں کی آنے والی نسلیں بھی آج تک اس میدان میں ناکام ہوئیں اوربدنامی نے تو ان کا بہت دور تک تعاقب کرکے انہیں اندھیرے میں بھٹکنے پر مجبور کردیا۔ اس جذبہ نے دونوں پارٹیوں کے ممبران کو مضبوطی دی اور بی ایس یدو رپاحکومت سازی کے بعد بھی اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ گورنر نے تو ان کی بڑی حمایت کی تھی۔16مئی کو خط لکھ کر17مئی کو حلف لینے کیلئے کہا اور پندرہ دن کی مہلت انہیں اپنی اکثریت ثابت کرنے کیلئے دے دی تھی۔کانگریس کے سینئر لیڈروں نے گورنر کے اس حکم کو غیرآئینی بتاتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاعدالت نے اس اپیل کو قبل کرکے نصف شب میں ہی اس معاملہ پر سماعت شروع کردی۔ اس کے بعد صبح ہوتے ہوتے عدالت نے یدورپا سے19مئی کو ہی اپنی اکثریت ثابت کرنے کیلئے سہ پہر چار بجے تک کا وقت دے دیا۔کانگریس کے تجربہ کارلیڈروں کی یہ سیاسی حکمت عملی اورقانونی رموز سے واقفیت کا نتیجہ ہے کہ ہر طرح کے طریقہ اپنانے اوراپنی پوری طاقت بروئے کار لانے کے باوجود بھی بی جے پی کرناٹک میں حکومت سازی میں بری طرح ناکام ہوگئی۔ یدورپا کے حلف لینے کے محض تین دن کے اندر مستعفی ہوجانا پڑا۔بی جے پی نے اس سلسلے میں جو کھیل کھیلا اس کی ایک معاون جماعت شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ بی جے پی کا کانگریس سے پاک ہندوستان بتانے کا جو خواب ہے اس کا یہ راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ضرورت جمہوریت کو بچانے کی ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے فیصلے عوام پر زبردستی تھوپ نہیں سکتی۔ اس سلسلے میں ہمارا آئین بہت مضبوط ہے۔ کوئی بھی لیڈر یاجماعت، منمانی نہیں کرسکتی ہے ۔ادھو ٹھاکرے نے گورنر کرناٹک وجوبھائی والا کے طریقہ کار پربھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کانگریس سے پاک بھارت بتانے کا فارمولہ انتہائی فسطائی ہے۔ہمارے آئین نے سب کو برابر کا حق دیا ہے کسی کو مٹانے کی وہ اجازت نہیں دیتاہے۔ بی جے پی اور آرایس ایس آج جس طریقہ پر ملک کو چلانا چاہتے ہیں اس سے ہماری شخصی آزادی ملک اور پریس کی آزادی کو کمزور کردے گا۔ ایک پارلیمانی جمہوریت میں ہمیں پارلیمنٹ اور آزاد میڈیا کی ضرورت ہے۔ بی جے پی ایک اور معاون جماعت آرپی آئی کے لیڈر رام داس اٹھاؤلے نے بھی کرناٹک قضیہ کے سلسلے میں بیان دیا تھا کہ اگر بی جے پی نے آئین مخالف کام کیا تو وہ این ڈی اے کو خیر آباد کہہ دیںگے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کرناٹک میں حال میں جو کچھ ہوااس کے بارے میں رام داس اٹھاؤلے اب کیاکہتے ہیں ۔رام داس اٹھاؤلے مرکزی وزیرمملکت برائے سماجی انصاف ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - سیاست میں سب جائز
 

شیئر:

متعلقہ خبریں