Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں پھٹ پڑیگا؟

عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما اور مغربی دنیا کے 5ممالک کی حکومتوں نے ایران کے ساتھ جو ایٹمی معاہدہ کیا تھا، اس پر بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔ آئندہ برسوں کے دوران بھی یہ گفت و شنید کا موضوع بنا رہے گا۔ اس حوالے سے کیا جانیوالا سب سے بڑا سوال یہی تھا اور رہے گا کہ کیا مذکورہ معاہدہ ایران کی ایٹمی حیثیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت کے تحت کیا گیا تھا یا یہ غیر مساویانہ غلط مذاکرات کے تحت قبل از وقت زچگی کا مسئلہ آپریشن کے ذریعے حل کرنے کیلئے انجام دیا گیا تھا۔ 
ڈینس روس قدیم سفارتکار ہیں ، مشرق وسطیٰ سے واقف ہیں ۔ اوباما انتظامیہ میں پہلے بھی کام کرچکے ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی بدولت پوری دنیا ایٹمی معاہدے سے پہلے کی دنیا سے زیادہ بہتر ہوگی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد انارکی کا آغاز ہواکیونکہ انہوں نے ایران کے ایٹمی معاہدے کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا تھا۔ممکن ہے ایران کے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے افکار و خیالات اور بھی ہوں، بعض حضرات اس معاہدے کے مداح ہیں ۔ ان کا تصور یہ ہے کہ اس معاہدے کی بدولت ایران کے ایٹمی منصوبے پر روک لگا دی گئی ہے۔معاہدے کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس معاہدے نے ایرانی نظام کو پورے خطے کی تباہی و بربادی کا فری ہینڈ دیدیا ہے اور ایران نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے علاقے کو تباہ و برباد کرڈالا ہے۔
میرے نقطہ نظر سے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے فوائد ہیں تاہم اس معاہدے کو ایرانی جرائم سے بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ مذاکرات کاروں نے انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جوہری ایندھن کی افزودگی بند کرانے کیلئے ایران پر لگائی گئی پابندیوں کے تمام قفل توڑ ڈالے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ایران کے حکمرانوں کے سامنے خود سری کے تمام دروازے کھل گئے۔ ایرانی حکمراں پنجرے سے باہر آگئے۔ انہوں نے ہزاروں فوجی اور جنگجو بیرون ایران جنگ کیلئے منتقل کردیئے۔ اقتصادی اور عسکری پابندیوں سے قائم ہونیوالی عالمی دیوار کے انہدام سے ایرانی حکمرانوں کے ہاتھ پوری طرح سے کھل گئے۔وہ تمام پابندیاں جو ایران کو خطے اور دنیا بھر میں آزادانہ سرگرمیوں سے روکے ہوئے تھیں وہ سب کی سب ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔
خطے کا علاقائی نظام اسی دن بکھر کر رہ گیا جس روز ایرانی وزیر خارجہ نے ایٹمی معاہدے کی دستاویزات ہاتھ میں لیکر خوشی سے چھلانگ لگا ئی تھی۔ انہوں نے آسٹریا کے دارالحکومت کے ہوٹل ”پیلس گوبرگ“کی بالکنی میں کھڑے ہوکر اپنی اندرونی خوشی کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ایران نے ایٹمی معاہدے پر مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد خطے میں بڑے پیمانے پر اپنی افواج پھیلا ئیں ۔اس سے قبل وہ لبنان اور غزہ تک خود کو محدودکئے ہوئے تھا۔ معاہدے پر دستخط کے بعد شام میں سب سے زیادہ فوجی اور جنگجو ایران کے ہی تعینات کئے گئے۔ایران نے عراق میں معرکوں کی قیادت شروع کردی۔ جدہ ، مکہ اور ریاض پر بیلسٹک حملے کرائے اور لبنان میں سیاسی ایوانوں کو اپنی مٹھی میں کرلیا۔
ڈینس روس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں ایران نے میزائل حملوں اور اسرائیل ڈرون بھیجنے اور سعودی شہروں پر میزائل داغنے کا جرا¿تمندانہ عمل اپنے خلاف ٹرمپ کے پرتشدد تصرفات سے متاثر ہوکر جوابی کارروائی کے طور پر کیا۔یہ ڈینس روس کا دعویٰ ہے ۔ ہمیں جو حقیقت صاف نظر آرہی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ ایران کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ پر دباﺅ بڑھانے کی ایرانی حکمت عملی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس سے قبل ایرانی حکمراں اوباما انتظامیہ پر بھی دباﺅ بناتے رہے ہیں۔ اوباما انتظامیہ جب بھی ایران کی جانب سے دباﺅ بڑھتا تھا تو وہ پسپائی اختیار کرلیتے تھے۔ انہوں نے عراق اور شام میں معاملات گرم کرکے امریکہ سے اسی طرح کافی کچھ حاصل کیا۔نتیجہ یہاں تک پہنچا کہ ایران نے امریکی ملاحوں کو گرفتار کیا اور آخر میں انہیں انتہائی ذلیل و خوار کرکے رہا کیا۔ 
یہ درست ہے کہ ٹرمپ نے شام میں ایرانیوں سے جنگ نہ کرنےکا فیصلہ کیا البتہ انہوں نے ایران پر دباﺅڈالنے کیلئے سیاسی و فوجی اتحاد کامیابی سے قائم کیا ۔ یہ ایسے عالم میں ہوا جب ایرانی شام میں جنگ جیتنے کے حوالے سے انتہائی پراعتماد ہوچکے تھے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کیلئے دروازہ کھولا اور شامی مسلح اپوزیشن پارٹیوں سے تعاون کیا۔ روس پر دباﺅ ڈالا، بشار الاسد کے نظام کو خبردار کیا کہ اگر ایرانی اور اسکی ملیشیائیں شام میں ہونگی تو ہ اقتدار میں نہیں رہیں گے۔
ڈینس روس کا یہ گمان کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کو بڑی جنگوں کے ہیبتناک آتش فشاں کی طرف دھکیل رہے ہیں، مبنی برحقیقت نہیں ۔ ممکن ہے ایران گرما گرمی میں اضافہ کرے تاہم اسے یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اسے اپنے کسی بھی اقدام کی بھاری قیمت چکانی پڑیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
 

شیئر: