کہتے ہیں انسان کو اپنے کئے کا حساب اسی دنیا میں دینا پڑتا ہے۔ اس کی زندہ مثال آج بھی یہاں موجود ہے اور اسے دیکھ کر میرے خیال سے ہر شخص کو عبرت حاصل کرنی چاہئے کیونکہ یہ مثال ہمیں مقام عبرت اور اس بات کی یاد دہانی کرتی ہے کہ اگر ہم کسی کیساتھ برا کریںگے تو ہمارا حشر بھی اس جیسا ہوسکتا ہے۔
وطن عزیز میں میرے ایک ساتھی کو اس کا مالک تنخواہ کے حوالے سے ہر ماہ تنگ کیا کرتا تھا اور بات بے بات اس کی تنخواہ کسی نہ کسی مد میں کاٹتا رہتا تھا ۔ اسے بہت تنگ کرتا تھا۔اس حوالے سے میں نے اپنے دوست کو کافی عرصہ تک پریشان دیکھا۔ کافی عرصے بعد جب میرے دوست نے ایک دن مجھے کال کی۔ دعا سلام کے بعد بتایا کہ وہ اس وقت لندن کی ایک بڑی کمپنی میں ملازمت کررہا ہے اور خوش ہے۔ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں ۔ چند سال بعد میرا وطن عزیز جانا ہوا ۔ ایک دن مصروف بازار سے گز ر رہا تھا تو دیکھا کہ انتہائی معذور شخص زمین پر لیٹا ہوا تھا اور لوگ اس کے آگے سکے رکھتے جاتے تھے اور وہ اپنے جسم کو گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔ جب میں قریب جاکر اس شخص کو دیکھا تو پہلی نظرمیں پہچان نہ سکا مگر کچھ دیر بعد یاد آیا کہ یہ تو میرے دوست کا مالک ہے ۔میں ڈرتے ہوئے اس معذور شخص کے قریب پہنچا اور اس سے کہا کہ تم فلاں شخص ہو تو اس نے ہاں کہا اور پوچھا کہ تم مجھے کیسے پہچانتے ہو۔میں نے بتایا کہ میں فلاں کا دوست ہوں ،تو اس نے کہا کہ اس سے کہو کہ مجھے معاف کردے کیونکہ آج میں اس نہج پر ان لوگوں کی بددعاﺅں کے نتیجے میں پہنچا ہوںجنہیں میں نے ماضی میں تنگ کیا تھا۔ اسکی یہ حالت دیکھ کر افسوس ہوا۔ اب میں اپنے دوست کو فون کرنے کی کوشش میں ہوں کہ وہ اسے معاف کردے۔