Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی کی دھار کند ہوچکی

ظفر قطب ۔ لکھنؤ
    کیرانہ اور نور پور کے الیکشن میں بی جے پی کی شکست در اصل اسکے اس نظریہ کی شکست ہے جسے آرایس ایس اس ملک پر آزادی کے پہلے سے ہی تھوپنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ اس سلسلہ میں آر ایس ایس کے ایک سابق سینیئر لیڈر ہمیندر ناتھ پنڈت جو کسی زمانہ میں آرایس ایس کے سربراہ گرو گول ورکر کے دایاں ہاتھ سمجھے جاتے تھے ،انھوں نے اس خطرناک جماعت کو جب خیر باد کہا تو ایک کتاب تحریر کی جس کا نام تھا ’’تھرڈ مراٹھا امپائر‘‘ ۔اسکے ہندی اور اردو اڈیشن کے نام تھے۔ تیسری مراٹھا سلطنت جبکہ مراٹھی اور دوسری زبانوں میں یہ کتاب طبع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
     ہمیندر ناتھ پنڈت نے لکھا ہے کہ آرایس ایس نے اس ملک پر ہندو راشٹر قائم کرنے کیلئے انگریزوں سے ایک خفیہ سمجھوتہ کرلیا تھا ۔ اسی بنا پر وہ ملک میں آزادی کی تحریک چلانے والوں کا مخالف تھا۔ اس کا خاص مقصد اس ملک پر برہمن راج قائم کرکے دلتوں اور مسلمانوں کو ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ سے دور رکھنا تھا لیکن آرایس ایس کا جو فارمولہ تھا وہ بہت گھسا پٹا تھا اس لئے وہ بہت جلد نمایاں ہوگیا لیکن بعد میں کافی غور و فکر کے بعد آرایس ایس نے جو نئی ترکیب نکالی اس کی مدد سے مودی کو ملک کا وزیراعظم بنایا اور ملک میں سیکولر بنیادیں کمزور ہوگئیں۔ اسکے علاوہ ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ملک کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد تیزی کے ساتھ کم ہوگئی۔ اس بار کیرانہ میںجو ضمنی الیکشن ہوا ہے اس کی بہت بڑی کامیابی یہ ہے کہ اترپردیش سے پہلی خاتون ممبر پارلیمنٹ بن کر تبسم حسن دہلی پہنچی ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں یوپی سے کوئی مسلم نمائندگی نہیں تھی۔
     یوپی الیکشن کے بعد جب بی ایس پی جیسی جماعت حاشیہ پر چلی گئی تب جاکر مایاوتی ، اکھلیش ، اجیت سنگھ اور دوسری علاقائی چھوٹی جماعتوں کو ہوش آیا کہ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو ہمارا وجود ہی ختم ہوجائیگا۔ پھر یہاں سے شروع ہوتی ہے اتحاد اور اتفاق کی کہانی۔ گورکھپور اورپھول پور کی پارلیمانی سیٹوں پر جب ضمنی الیکشن ہوا اور حکمراں جماعت کے 2 بڑے پہلوان وزیراعلیٰ یوگی اور ڈپٹی وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ اپنی وقار کی دونوں سیٹوں کو بچا نہیں سکے۔ ان دونوں فائر برانڈ لیڈروں کی شکست کے بعد بی جے پی اور آرایس ایس جو حیرت زدہ تھے،نے مل کر اس پورے معاملہ کا تجزیہ کیاکہ آخر ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ اسکے بعد جب کیرانہ اور نور پور الیکشن کا نمبر آیا تو بڑی تیاری کے ساتھ خم ٹھونک کر آر ایس ایس اور بی جے پی کے پہلوان اکھاڑے میں اتر پڑے۔ مرکزی اور ریاستی وزرا بھی بڑے طمطراق کے ساتھ میدان میں آئے اور اعلان کیا کہ اب ان سے پہلی والی غلطی نہیں ہوگی ۔ وزیراعلیٰ اور ڈپٹی وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے زبردست دعوے کرڈالے۔ دونوں کا غرور ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔ یوگی نے تو اپنے روایتی انداز میں فرقہ پرستی کو موضوع بنایاحالانکہ انھیں اس کا اندازہ ہوگیا تھا کہ فرقہ پرستی کا فارمولہ اب ملک میں نہیں چلے گا۔ اس کا ثبوت انھیں کرناٹک الیکشن سے چل چکا تھا جہاں وہ اسٹار کمپنیر بن کر گئے تھے اور اپنا سارا زور ٹیپوسلطان کیخلاف محاذ قائم کرکے کنڑ عوام کے دلوں میں فرقہ پرستی جگا کر ووٹ ہتھیانے کی کوشش کی تھی لیکن نتیجہ اس کے الٹا گیا۔ جس مودی جادو کا ذکر آرایس ایس اور بی جے پی والے کرتے ہوئے تھکتے نہیں، وہ جادو بھی ناکام ہوگیا۔
     در اصل آرایس ایس اور بی جے پی کی پوزیشن ریگستان کے اُس شتر مرغ کی طرح ہے جو طوفان کی طاقت کو نہ سمجھ کر اپنا منہ ریت کے اندر چھپا کر سب کچھ محفوظ سمجھنے لگتا ہے ۔یہی غلطی کیرانہ میں آرایس ایس کر بیٹھی ۔وہ صرف کیرانہ سے نقل مکانی کرنیوالے ہندوؤں کی داستان فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرکے الیکشن جیت لینا چاہتے ہیں جیسا اس نے گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں کیا تھا۔ اس وقت یہی حکم سنگھ تھے جن کے گزر جانے کے بعد یہ ضمنی الیکشن ہوا۔ اس وقت اس جاٹ علاقے میںنقل مکانی کی نئی کہانی چھیڑی کہ مسلمانوں کے خوف سے ہندو اس علاقے سے اپنے گھروں پر تالا لگا کر علاقے سے بھاگ گئے ہیں۔ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا انھیں فائدہ ملا اور وہ الیکشن جیت گئے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ’’کاٹھ کی ہانڈی‘‘ چولہے پر بار بار نہیں چڑھتی۔ اس بار بھی آرایس ایس اور بی بی جے پی نے یہی راگ الاپا جسے سن کر عوام طنزاً مسکرا کر رہ گئے۔آنجہانی حکم سنگھ نے جب یہ داستان چھیڑی تھی تو اسی وقت اس ملک کے کچھ ایماندار ٹی وی چینلز سچائی سامنے لائے تھے۔ جن گھروں اور مواضعات کے مکین اپنے علاقے چھوڑ کر گئے تھے ۔ انھوںنے خود کیمرے کے سامنے آکر بتادیا کہ نہ تو وہ کسی سے ڈر کر یہاں سے گئے ہیں اور نہ ہی کسی نے انھیں ستایا ہے۔ وہ لوگ اپنے کاروبار کو فروغ دینے یا اچھی ملازمتوں کو حاصل کرنے کے بعد دہلی نوئیڈا اور گڑگاؤں میں سکونت پذیر ہوئے ہیں ۔
     بی جے پی کے اسٹار مشتہرین گورکھپور اور پھول پور میدان کو جسے وہ قلعہ کے نام سے پکارتے تھے ان دونوں منہدم ہونے کے بعد بھی ہوش میں نہیں آئے اور مغربی یوپی میں بھی وہ شکست کھا کر چلے گئے۔ تعجب ہے کہ آرایس ایس اتحاد و اتفاق کی حکمت عملی ابھی تک نہیں سمجھ پائی۔ جن مسلمانوں سے سبرامنیم سوامی جیسے لوگ ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہتے تھے۔ان کاساتھ علاقہ کے دلتوں ، پس ماندہ اقوام اور جاٹوںنے دے کر یہ پیغام دیدیا کہ یہ ملک گاندھی کا ہے گوڈسے کا نہیں ۔ اب بی جے پی اور آرایس ایس کے تھنک ٹینک کے لیڈر لاکھ اگر مگر کہیں لیکن اس بات کو جھٹلانہیں سکتے کہ ان کی انتخابی مہم کی دھار کند ہوچکی ہے۔ بی جے پی سے عوام سخت ناراض ہیں۔ اس کا ثبوت اب کیرانہ اور نور پور سے زیادہ نہیں ہوسکتا ۔ انھیں اتحاد کی طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر انھوںنے اب بھی کسانوں، نوجوانوں،دلتوں اور اقلیتوں کو اسی طرح نظر انداز کیا تو 2019ء کے الیکشن میں فتح کا منظر نامہ ان کے حق میں لکھا جانا تو دور کی بات رہی،انھیں اپنا وقار بچانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ نور پور اور کیرانہ جیتنے کے لیے ریاستی حکومت کے وزراء دن رات جلسوں کو خطاب کرتے رہے۔ کتنے مرکزی وزراء نے اندھا دھند ریلیاں کیں۔ وزیر سریش رانا نے تو 100سے زائد عوامی جلسے کیے۔ الیکشن سے ایک روز قبل کیرانہ سے 40 کلومیٹر دور وزیراعظم نے ریلی کی اور ایکسپریس وے کا افتتاح کرڈالا ۔پس ماندہ اقوام میں انتہائی پس ماندہ کا کارڈ بھی کھیلا۔ ہمدردی کی لہر بھی چلانے کی کوشش کی۔ ان سب کے باوجود عوام نے اپنی فکر نہیں بدلی اور دلوں کو پہلے کی طرح مضبوط رکھا۔ اس علاقہ میں سماج وادی رہنما اکھلیش نہیں گئے اس طرح مایاوتی بھی وہاں نہیں پہنچیں۔ کسی کے حق میں بیان بھی نہیں دیا۔ اس کے باوجود بھی اتحاد نے آرایس ایس و بی جے پی کو ایسی پٹخنی دیدی کہ 21 ریاستوں پر قابض حکمراں جماعت بی جے پی اٹھنے کے قابل نہیں رہی۔ اب سوال یوگی آدتیہ ناتھ پر بھی اٹھنے لگے ہیں۔ اس میں ان کی پارٹی کے لوگ ہی پیش پیش ہیں ۔ جس غالب اکثریت سے بی جے پی یوپی میں اقتدار میں آئی تھی اب اس کا اثر زائل ہوگیا ہے۔یوگی حکومت کے ایک برس سے زائد ہوچکے ہیں اور اس دوران وہ 4 سیٹیں ضمنی الیکشن میں ہار چکے ہیں۔ یہ چاروں سیٹیں بی جے پی کی ہی تھیں اور گورکھپور کی سیٹ تو خود یوگی آدتیہ ناتھ کی تھی جسے وہ گنوا بیٹھے ہیں۔ اس طرح یوگی قیادت اپوزیشن سے مات کھا چکی ہے۔ اگر اپوزیشن اسی طرح متحدہ رہی تو پھر آئندہ تاریخ بدل جائیگی۔
مزید پڑھیں:- - - - -میڈیا کی سودے بازی

شیئر: