نئے وزیر محنت اور دیرینہ مسائل کے بادل
فواز بن حمد الفواز۔ الاقتصادیہ
عوامی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مفید پالیسیوں کی تجویز کے حوالے سے علم معیشت پر نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ بعض اعتراضات بجا و برحق لگتے ہیں۔ میرا نکتہ¿ نظریہ ہے کہ اگر اقتصادی ترقی خاص طور پر تیل و الے ممالک میں ترقیاتی عمل کا معاملہ ہو تو چیلنج دوچند ہوجاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تیل پیداوار کی بدولت اکثر شہریوں کا معیارِ معیشت بہتر آمدنی کے باعث اچھا ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ لیبر مارکیٹ میں زندگی کی کشمکش کے مناظر سے خالی ہونے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ 85فیصد سے زیادہ باشندے سرکاری سیکٹر میں کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ نجی اداروں میں 85فیصد کارکن غیر ملکی ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے سعودی وژن 2030اور قومی تبدیلی پروگرام 2020 لایا گیا۔
سعودی لیبر مارکیٹ کا چیلنج بہت بڑا ہے۔ یہ کثیر جہتی ہے۔ جزوی قسم کے فیصلوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ بات مسلم ہے کہ بیشتر فیصلے صحیح جہت میں کئے گئے ہیں تاہم ادارہ جاتی آگہی کا فقدان اپنی جگہ قائم ہے۔ شہریوں کے درمیان مسابقت کا ماحول مسلسل بن رہا ہے۔ تعلیم کی اہمیت اجاگر ہورہی ہے۔ محنتانوں اور شراکت کا تناسب بھی سر ابھار رہا ہے۔ خاص طور پر خواتین کی شراکت کا معاملہ زور پکڑ رہا ہے۔ اوقات کار اور ترسیل زر کے مسائل بھی ہیں۔ جزوی فیصلے ان ساری گتھیو ں کو نہیں سلجھا سکتے۔ ترقی کا تقاضا پورا کرنا ہے تو مملکت کے سرکاری و نجی اداروں کی گنجائش کا دائرہ وسیع کرناہوگا۔ اکثر شہریوں میں روزگار کی مہارت کا معیار بلند کرنا ہوگا ۔ مالی ترغیبات کے ذریعے تدریجی تبدیلی لانا ہوگا۔ جتنا زیادہ مسابقت کا ماحول پیدا ہوگا اتنا ہی لیبر مارکیٹ کا ماحول اچھا بنے گا۔ اسکے لئے ایک اقدام یہ کرنا ہوگا کہ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا تناسب گھٹانا پڑیگا۔ ثانوی اسکول پاس طلباءکو تعلیمی وفود کی صورت میں باہر بھیجنے کا سلسلہ کم کرنا ہوگا۔ تکنیکی تعلیم پر توجہ بڑھانا ہوگا۔ ہنر مندوں اور جدت طرازوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ نجی اداروں میں محنتانوں کے معاملے میں توازن پیدا کرنا پڑیگا۔سعودی ملازمین کو غیر ملکی ملازمین سے تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی ناکافی ثابت ہوگی۔ اگر نجی ادارے سعودی شہریوں کے درمیان مسابقت کی فضا برپا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ایسی صورت میں خارجی ملازمین سے مقابلے کا مسئلہ خود بخود حل ہوجائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭