سعودی سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
کوریا کا بحران جو بظاہر سیاسی نظر آرہاہے حل ہونے کے باوجود اندر سے اہم اقتصادی بحران کا پتہ دے رہا ہے۔ شمالی کوریا جسکی معیشت کا 40فیصد حصہ جنوبی کوریا کی معیشت سے جڑا ہوا ہے، وہ عالمی امن و استحکام کو مسلسل خطرات لاحق کرنے کی صورت میں پائدار سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر نہیں چل سکتا۔ شمالی کوریا کو جب یہ احساس ہوگیا کہ سرد جنگ ختم ہوچکی ہے تو اسکی نظریں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے پر لگ گئیں۔ دنیا بھر کے ممالک شمالی کوریا کو اہم اقتصادی ہدف مان رہے ہیں کیونکہ یہ سرمایہ کاری کیلئے انتہائی منافع بخش ملک ہے۔
یورپی ممالک میں ان دنوں اقتصادی منظر نامہ زیادہ پیچیدہ نظر آرہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکی صدرٹرمپ جی سیون سربراہ کانفرنس کے اختتام پر جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیہ کی منظوری سے پیچھے ہٹ گئے۔ انہوں نے کینیڈا پر الزام لگایا کہ وہ شفاف پالیسی سے آراستہ نہیں۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ کینیڈا امریکی کمپنیوں، زرعی فارموں اور امریکی کارکنان پر بھاری ٹیکس لگارہا ہے۔ کُل ملا کر یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ اقتصادی حالات ہی سیاسی تعلقات کی جہت متعین کررہے ہیں۔
شمالی کوریا کو سیاسی، جغرافیائی محرکات اور گہرے نیز بڑے پرکشش حالات کے باوجود قومی اقتصاد کے حوالے سے مختلف قسم کے چیلنجوں کاسامنا ہے۔
کریڈ ٹ درجہ بندی کی ماہر فش ایجنسی نے حال ہی میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کو جس درجے میں شامل کیا گیا ہے اس کا محرک یہ ہے کہ مملکت کا موجودہ قومی بجٹ اور بین الاقوامی زرمبادلہ کے ذخائر معمولی منافع والے سرکاری قرضے اور عظیم الشان سرکاری اثاثے تقویت پہنچا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی حکومت وسیع البنیاد اصلاحی ایجنڈے کی پابندی کررہی ہے۔ توقع یہ ہے کہ آئندہ برس سعودی عرب کے قومی بجٹ کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے6.4فیصد تک کم ہوجائیگا۔ 180ارب ریال کے لگ بھگ بجٹ خسارہ رہیگاجبکہ 2017ءکے بجٹ میں خسارے کا تناسب 8.3فیصد تھا۔ اقتصادی صورتحال واضح کررہی ہے کہ سعودی عرب کا ترقیاتی مستقبل اعلانیہ آرزوﺅں سے جڑا ہوا ہے۔ اسکا پھل نظرآنے لگا ہے۔ سعودی عرب جتنا بڑا ملک ہے ،اسی تناسب سے امید کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭