Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیار مقدس نے انتہائی حسین لمحات حیات سے نوازا،سیما احمد جمال

عنبرین فیض احمد۔ینبع
انسان بلا شبہ اشرف المخلوقات ہے ۔ محبت و خلوص اس کی فطرت کا خاصہ ہے ۔ چاہنا اور چاہے جانے کی خواہش قدرت نے انسان کے خمیر میں گوندھ دی ہے اسی لئے وہ ایک دوسرے سے احترام، ادب ، رواداری اور تہذیب کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ یہ کائنات انسانو ں کیلئے ہی بنی ہے تاکہ زمین پربسنے والے ایک دوسرے کے دکھ درد، غم اور خوشی میں ساتھ چل سکیں۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ انسان جبلی طور پر غول پسند ہے۔ وہ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اسی لئے وہ مختلف عنوانات کے تحت مل بیٹھنے کے بہانے تراشتا ہے۔ذرا غور فرمائیے کہ ایک لڑکی کو والدین نکاح پڑھا کر دولہا کے ساتھ رخصت کر دیتے ہیں ۔ یہ تمام کارروائی ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں مکمل ہو جاتی ہے مگر ہم نے اس کو ”مایوں، مہندی، شادی ، ولیمہ، چوتھی، چالے، چلہ، چھٹی، چھوچھک“کے زیر عنوان کتنا وسیع کر دیا۔یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ زندگی بھر کسی نہ کسی بہانے جاری ہی رہتا ہے ۔ یہ ہے مل بیٹھنے اور باہمی ربط ضبط قائم رکھنے کی قدرتی خواہش کا ثبوت۔
یہ امر بھی کسی ثبوت کا محتاج نہیں کہ محبت اور خلوص حیات انسانی کا وہ محور ہیں جس کے گرد تمام رشتے ایک مدار میں گردش کرتے ہیں۔ یہ محور محبت ان تمام رشتوں کو اپنی جانب کشش کرتا ہے۔ یہ سارا نظام ایک ایسا ”ایٹم“ یا ”جوہر“ تشکیل دیتا ہے کہ اگر اس کو توڑنے کی کوشش کی جائے تو ایٹم کی طرح تتر بتر ہو کر انسان کو صدمے سے دوچار کر دیتا ہے۔ اس کے احساسات کی دنیا ویران ہو جاتی ہے ، کائنات اسے بے رنگ دکھائی دینے لگتی ہے، زندگی اسے بوجھ لگنے لگتی ہے ،وہ اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے ۔ اس کیلئے محفلیں تنہائیوں میں بدل جاتی ہیں اور تنہائیوں میں وہ اپنی محفلیں سجانے لگتا ہے ۔ایک عام انسان پر یہ ”جوہری عقدے“ اس وقت وا ہوتے ہیں جب وہ اپنوں سے دور سمندر پار کی تنہائیوں کو اپنی یادوں سے آباد کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ اپنوں سے دور یہ دنیا لق و دق ہوتی ہے اوراپنوں کے درمیاں اصل رونق ہوتی ہے۔
”ہوا کے دوش پر“ آج اردو نیوز کی مہمان سیما احمد جمال قریشی ہیںجو حیات انسانی کے اس ”جوہری عقدے“ سے بخوبی واقف ہیں۔ سیما کاتعلق کراچی سے ہے ۔ وہ بہت ہی سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ ان کی مسکراہٹ اور گفتگو کرنے کا انداز بھی خوب ہے ۔ اپنی ان عادات کے باعث وہ اکثر محفلوں میں توجہ کی مرکز بنی رہتی ہیں ۔ سیما جمال کا کہا ہے کہ ان کے والدین کاتعلق ہند وستان سے ہے۔ والد دہلی کے ہیں جبکہ والدہ کا شہر علیگڑھ ہے۔ ان کے سسر آگرہ اور ساس دہلی سے تعلق رکھتی ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد نانا اور دادا دونوں اپنے خاندانوں کے ساتھ پاکستان آکر سکونت پذیر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میری اور میرے شوہر کی پیدائش کراچی کی ہے۔
سیما جمال نے کہا کہ 1983ءمیںمیرے شوہر روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب آگئے تھے۔ہم لوگ جب یہاں آئے تومجھے تنہائی کا بہت احساس ہوتا تھا، ما شاءاللہ، بھرے پرے گھر سے میں یہاں آئی تھی ۔ وہاں تو ہر وقت رونق رہتی تھی، مہمانوں کاآنا جانا لگا رہتا تھا لیکن یہاں صرف تنہائی تھی۔ ان کے شوہر کے 9 بہن بھائی ہیں۔ ان کی شادی سے پہلے صرف ایک نند کی شادی ہوئی تھی۔ باقی 3 نندیں ،3 دیور اور ایک جیٹھ سب ساتھ رہتے تھے یعنی مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ 
انسانی زندگی میںاونچ نیچ ہوناعام سی بات ہے یہی قانون فطرت بھی ہے کہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں ،وہاں آواز توپیدا ہو ہی جاتی ہے۔ اس سے انسان کو بالکل نہیں گھبرانا نہیںچاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دونوں میاں بیوی کو فلاحی کاموں میں بڑی دلچسپی ہے۔ میرے شوہر بھی لوگوں کی مدد کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے ہیں۔ کسی ضرورت مند کی مدد کرکے ہمیں دلی تسکین محسوس ہوتی ہے اور ہمیںپتہ ہے کہ اگر ہمیں بھی کبھی کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو رب کریم ہماری غیب سے مدد فرمائے گا۔ اس لئے غریب ضرورت مندوں کی مدد کیلئے ہروقت تیار رہنا ان کا مجبوب مشغلہ ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے میں ہی برکت ہے۔
اسے بھی پڑھئے:تعلیم کی کمی دور ہو سکتی ہے مگر تربیت کا سقم نہیں، ڈاکٹر سعیدہ میمن
زندگی تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا حسین تحفہ ہے۔ اس لئے انسان کو زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر گزارنا چاہئے ۔اس دیار مقدس نے ہم سب کو بڑے خوبصورت اور حسین لمحات ِ حیات سے نوازا ہے۔ میںنے یہاں کی ہر صبح و شام اتنی پرلطف گزاری کہ بیان نہیں کرسکتی۔سیما نے بتایا کہ مملکت آنے کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی میری والدہ کا انتقال ہوگیا ۔ اس وقت تک میرے یہاں کوئی اولاد نہیں تھی ، ان کی والدہ کو ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی تھی۔ آخرکا ر اللہ کریم نے کرم فرمایا اور شادی کے 10 سال بعد مجھے اولاد کی نعمت عطا ہوئی ۔میں نے اپنی بیٹی کا نام وجہہ فاطمہ رکھا۔ سیما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیںہونا چاہئے۔ ان لوگوں کو جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں،انہیں اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے ، وہ ان کی دعائیں ضرور قبول فرمائے گا ۔ بس ذرا دیر ، سویر کی بات ہوتی ہے۔ انسان کو صبر سے کام لینا چاہئے۔ 
میرے شوہر ماشاءاللہ ہر معاملے میں میرا ساتھ دیتے ہیں ۔ کبھی مایوس نہیں ہوتے، حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میری والدہ کے انتقال کے بعد والد بھی دیار فانی سے رخصت ہوگئے ۔ اس طرح ہمارا میکا خالی ہوگیا۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ میری شادی میرے پھوپھی زاد سے ہوئی۔ اس لئے ہمارے سسرال کا ماحول بھی ایسا ہی تھا جیسے میکا کیونکہ وہ میری پھوپھی کا ہی گھر تھا۔ ہم سارے بہن بھائی اپنی پھوپھی سے بہت قریب تھے۔ وہ ہم سب سے بہت پیار و محبت کرتی تھیں۔ اس لئے سرال والوں سے میرے تعلقات ہمیشہ بہت اچھے رہے۔ میں اور میری نندیں بہنوں کی طرح ایک دوسرے کاخیال رکھتی تھیں اور دیور بھی مجھے بھابھی کے بجائے آپا ہی کہتے تھے۔وہ مجھے ہمیشہ اپنی بڑی بہن سمجھتے ہیں۔ جس گھر میں مجھے اتنا پیار ملا ہو تو میرابھی کچھ فرض بنتا ہے کہ ان کی محبتوں کاجواب محبتوں سے دوں۔
اسی طرح دیور انیوں اور جٹھانی کے ساتھ بھی میری بڑی اچھی دوستی ہے۔ جب ہم چھٹی پرپاکستان جاتے ہیں تو بڑا ہی اچھا وقت گزرتا ہے۔ سارا خاندان اکٹھا ہوتا ہے اوررات بھر خوب باتیں ہوتی ہیں۔ خوب قہقہے بکھیرے جاتے ہیں ۔بہت اچھا ماحول ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی میرے سسرال کا ماحول بہت اچھا ہے لیکن اب تو میرے شوہر کے والدین بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس طرح میرا سسرال بھی اب خالی ہوچکا ہے ۔ 
کہتے ہیں کہ ماں سے میکا ہوتا ہے اور ساس سسر سے سسرال قائم رہتا ہے لہٰذا اب میرے لئے دونوں ہی در بند ہوچکے ہیں۔ اب چھٹی پر جاتی ہوں تو کبھی کسی بہن کے گھر ، کسی دیور کے گھر یا پھر جیٹھ کے گھر ہوکر واپس آجاتے ہیں۔ جب ساس سسرزندہ تھے تو بڑا ہی اچھا وقت گزرتا تھا۔
سیما نے اپنے تعلیمی حوالے سے کہا کہ میں نے اسلامیہ کالج سے انٹر پاس کیا اور انگریزی کا کورس بھی کیا۔ گل رعنا سینٹر سے نٹنگ اور کوکنگ کا کورس کیا اور رنگون والا ہال، دھوراجی سے بیکنگ کا کورس کیا۔ یہاں آکر مدرسہ خدیجہ(رضی اللہ عنہا) رائل کمیشن ،ینبع سے قرآن پاک حفظ کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھنابھی سعودی عرب آکر ہی سکھا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ہمیں صحیح انداز میں دینی رہنمائی ملتی ہے ۔ دین کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور یوں اللہ کریم کی قربت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں انسان بے شک محنت بہت کرتا ہے مگر سکون کی نیند سوتا ہے۔ ہر کوئی اخلاق سے ملتا ہے۔ نہ کسی کو کسی سے حسد ہے اور نہ ہی کسی سے جلن۔سب اپنے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔مقدس سرزمین پر سب سے بڑی سعادت مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ہے۔ جب چاہتے ہیں، حرمین شریفین پہنچ جاتے ہیں ۔ خاص طور پر رمضان المبارک تو بہت ہی پر رونق گزرتا ہے۔ تلاوت قرآن پاک اور د یگر عبادات سے جو وقت بچتا ہے، اس کو بھی قرآن پاک کی تفسیر پڑھنے میں صرف کیاجاتا ہے تاکہ اللہ کریم کے احکامات کو سمجھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔
شادی کے بعد جب یہاں آئی تو تنہائی ، اداسی، اپنوں کی یادیں بے چین کئے دیتی تھیں کیونکہ شوہر صبح 6 بجے ڈیوٹی پر چلے جاتے اور شام گئے واپس آتے تھے۔ اس لئے انہوں نے مشورہ دیا کہ میں محلے کے بچوں کو پڑھانا شروع کردوں۔ یوں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس طرح وقت اچھا گزرنا لگا۔
سیما کے شوہر کا بچپن ہری پور ہزارہ میں گزرا اور وہیں سے انہوں نے میٹرک پاس کیا ۔ ان کے والد ٹی اینڈ ٹی میں ملازمت کیا کرتے تھے۔ بعدازاں والدین کے ساتھ وہ کراچی آگئے۔ جہاں شپ اونرز کالج سے انٹرکیا اوراس کے بعد نیشنل ریفائنری سے تربیتی کورس کرکے سعودی عرب آگئے۔ یہاں ایک کمپنی میں ملازمت شروع کردی۔
سیما جمال نے کہا کہ میرے والدین اور ساس سسر کے انتقال کے بعد ان کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوئی۔ ان کی جگہ کوئی پُر نہیں کرسکا۔ زندگی میں بزرگوں کا ساتھ رہے تو دعائیں سمیٹنے کا موقع ملتا رہتا ہے ،ان کی محبتیں بے حساب ملتی ہیں۔ اس لئے جدائیاں بھی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا جتنا ممکن ہو احترام کرنا چاہئے۔ رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہئے۔ مل جل کر عفو درگزر سے کام لے کر زندگی کو خوشگوار بنانا چاہئے نہ کہ چھوٹی موٹی باتوں سے اپنے دل میں کینہ اور بعض لے کر خونی رشتوں کواپنے آپ سے دور کیاجائے ۔ ایسا کرنا اچھی عادت قطعاً نہیں۔ کینہ اور بغض تو ایسے ناگ کی طرح ہوتے ہیں جو انسان کو اندر ہی اندر ڈس لیتے ہیں۔ 
یہ باتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں کہ رشتوں کو بگاڑنا بڑا آسان ہوتا ہے مگر انہیں جوڑنا اور نبھانا بظاہر مشکل ترین ہے لیکن اصل زندگی کا لطف اسی میں ہے۔ ہر شتہ آپ سے توجہ مانگتا ہے۔ اگر رشتوں کی طرف توجہ نہ دی جائے گی توان کی خوبصورتی ماندپڑجاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ ماشاءاللہ، میں نے بہت ساری سہیلیاں بنائیں جو ہمیشہ میرے ساتھ مل جل کر فلاحی کام کرتی ہیں۔
سیما کے شوہر احمد جمال بہت ملنسار اوربا اخلاق قسم کی شخصیت ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ سیما نے کہا کہ جب بھی گھر میں مہمانوں کی دعوت کا کوئی سلسلہ ہوتا ہے تووہ ہمیشہ میرے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بہت سلیقے سے سلاد سجاتے ہیں۔ احمد جمال نے کہا کہ بیوی آپ کے دکھ سکھ کی ساتھی ہوتی ہے اس لئے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس طرح گھر کا ماحول بہت اچھا رہتا ہے بچوں پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ بچے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں کہ آپ کے اردگرد ہر رشتہ کسی نہ کسی طور محبتوں کا طالب ہوتا ہے۔ رشتوں میں محبتیں بانٹنے سے ہی گھر کا سکون و چین قائم رہتا ہے۔ یقینا ہر رشتے کو عزت دینے سے ہی خوشگوار زندگی کا آغاز ہوتاہے۔ محترمہ سیما اور احمد جمال دونوں میاں بیوی کا کہنا ہے کہ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کے والدین زندہ ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریںاور اپنے لئے جنت کے حصول کو یقینی بنا لیں۔ان کی خدمت سے منہ موڑ کر اس جنت کو اپنے ہاتھو ں ضائع نہ کریں۔ 
 

شیئر: