الیکشن کا سب سے بھاری ہفتہ
قیام پاکستان کے صرف 11 سال بعد ہی جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی اور پہلے مارشل لاء یعنی فوجی حکمرانوں کا دُور شروع ہوا۔ جنرل محمد ایوب خان نے سیاسی بحران کا فائدہ اُٹھاکر جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا تو عوام نے جو ان سیاستدانوں کے دن رات گٹھ جوڑوں سے عاجز آچکے تھے خوشی خوشی فوج کو ویلکم کیا ۔ایوب خان نے پہلے چند سال اپنے لائے ہوئے فوجیوں سے کام چلایا پھر پرانے سیاست دانوں پر ایبڈو کا قانون لگاکر اُن کو سیاست سے باہر کردیا ۔یہ سیاست دانوں پر نااہلیت کا پہلا تجربہ تھا۔ سوائے ایک سیاست دان شہید سہروردی کے کسی نے اس قانون کے خلاف مقدمہ نہیں لڑا اور چپ ہوکر بیٹھ گئے ۔پھر کسی نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ دنیا کو دکھانے کے لئے اپنی سیاسی جماعت بناکر تاحیات مسند اقتدار پر بیٹھنا زیادہ آسان ہے تو اُس نے اپنے سیاسی مشیروں کے کہنے پر راتوں رات الیکٹرایبلز سیاست دانوں پر مشتمل مسلم لیگ کنونشن کی نام کی سیاسی جماعت بناکر لمبی پلاننگ کی ۔یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی کوکھ سے جنم لیا تھا مگر جب الیکشن کا وقت آیا تو انہی سابق نااہل سیاست دانوں نے مل کر ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح کو پہلی بار سیاست میں اُتارا عوام نے اُن کی پذیرائی کی اور ڈٹ کرانہیں ووٹ دیئے۔مگر اس کے برعکس ڈبوں سے ووٹ ایوب خان کے نکلے اور اس طرح محترمہ فاطمہ جناح الیکشن ہار گیئں اور ووٹ کا تقدس پامال ہوگیا ۔
چند ہی سالوں بعد یہ سیاست دان مل کر ایوب خان کیخلاف ڈٹ گئے اور جب وہ اپنے 10سالہ اقتدار کا جشن منانے میں مصروف تھے تو ایوب خان کیخلاف یہ پہلی عوامی بغاوت تھی جس کو وہ برداشت نہیں کرسکے مگر اقتدار واپس سیاست دانوں کو دینے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کو دے کر بیٹھ گئے ۔قصہ مختصر یحییٰ خان نے بھی وعدے کے مطابق الیکشن کروایا مگر اقتدار سیاستدانوں کو واپس کرنے کے بجائے2 بڑی پارٹیوں کو یعنی بھٹو صاحب کی پی پی پی اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو آپس میں لڑوادیا۔ہند نے فائدہ اُٹھاکر شیخ مجیب الرحمان کو جو مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے تھے اور حق بھی انہی کا تھا مداخلت کرکے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا اور اس طرح پاکستان 2حصوں میں بٹ کر بنگلہ دیش بن گیا ۔ادھر مغربی پاکستان کی جماعت پی پی پی کو اقتدار سونپ کر یحییٰ خان فارغ کردیئے گئے ۔پھر جمہوری دور شروع ہوا مگر پھر جب بھٹو صاحب نے الیکشن کروائے تو تمام سیاست دانوں نے قومی اتحاد بناکر الیکشن مشترکہ لڑا ۔بظاہر پی پی پی والوں نے چند علاقوں میں دھاندلیاں کرواکر الیکشن مشکوک بنا دیا مگر قومی اتحاد ڈٹ گیا اور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ بھٹو صاحب یہ دبائو برداشت نہ کرسکے اور فوج کے جنرل ضیاء الحق نے 90دن کے وعدے پر سنبھالا ۔اُن کو کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ اگر الیکشن کا نتیجہ پی پی پی کے حق میں آیا تو آپ کی بھی خیر نہیں ہوگی ۔انہوںنے دیگر سیاستدانوں کو اعتماد میں لے کر پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ لگواکر عوام کو ٹھنڈا کردیا ۔پھر ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھکانے لگا دیا ۔ضیاء الحق اقتدار کے مزے اپنی بنائی ہوئی الیکٹر ایبل سیاسی جماعت مسلم لیگ جونیجو کو سامنے رکھ کر لوٹتے رہے اور پھر قصہ مختصر بہاولپور کا سانحہ ہوا اور جنرل ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں ہی پھٹ گیا اور آج تک ان کے صاحبزادے اعجاز الحق بھی یہ نہ جان سکے کہ کیسے پھٹا ۔
ضیاء الحق کی کوکھ سے مسلم لیگ کی نواز شریف جنم لے چکے تھے جن کو محمد خان جونیجو کیخلاف اتارنا تھا مگر حالات نے ضیا ء الحق کا ساتھ نہیں دیا اور اُس کی تکمیل آنے والے نگراں صدر غلام اسحاق خان نے سر انجام دی۔پھر الیکشن کرایا اور پی پی پی کی بے نظیر بھٹو کو عوام نے پذیرائی دی ۔مسلم لیگ نواز شریف اس کی حریف بن کر ابھری تھی ۔نگراں صدر نے سودے بازی کرکے اقتدار پی پی پی کودے تو دیا مگر باگ ڈور اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ۔بے نظیر نے مصلحت کے تحت اقتدار قبول کرلیا مگر یہ عارضی رہا ۔اب صدر اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو میں اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی اور صرف ڈھائی سال بعد ان کو معزول کرکے الیکشن کروائے تو قرعہ میاں نواز شریف کا نکلا۔ صدر غلام اسحاق نے پھر اقتدار اُن کے حوالے کردیا ۔چند سال بعد پھر وہی کرپشن کے الزامات نواز شریف پر لگے اور اقتدار چھن گیا اس بار قوم نے پی پی پی کو جتوادیا ۔الغرض2,2بار اقتدار بے نظیر اور نوازشریف کو ملتا رہا ۔آخری بار جب اقتدار نوازشریف کو دوتہائی اکثریت سے ملاتھا ،وہ اس کو برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے پہلے صدر فاروق احمدخان لغاری کو فارغ کردیا پھر چیف جسٹس کو فارغ کیا آخر میں اپنے ہی لائے گئے جنرل پرویز مشرف کو فارغ کیا تو نوالہ حلق میں پھنس گیا اور اقتدار جنرل پرویز مشرف کو مل گیا ۔نوازشریف ڈیل کرکے سعودی عرب روانہ کردیئے گئے ۔قصہ مختصر اب پرویز مشرف نے انہی مسلم لیگی الیکڑابیل سیاسی جماعت مسلم لیگ ق بناکر اقتدار کے مزے لوٹنے شروع کیے ۔ستم ظریفی دیکھئے پرویز مشرف کے الیکشن 2002میں یہی مسلم لیگی تقریباً ڈیڑھ سو کی تعداد میں ن لیگ کوچھوڑ کر ق لیگ میں آگئے۔ پھر جب اقتدار مشرف سے کمزور پڑا تو 2008میں یہی ق لیگی پی پی پی میںآکر پی پی پی کواقتدار دلواگئے اور جب نوازشریف مضبوط ہوگئے اور عوام پی پی پی کے مخالف ہو گئے تو یہی الیکٹرابیل 120افراد پی پی پی کو چھوڑ کر نواز شریف کی طرف لوٹ گئے اور اقتدار کے مزے خود بھی لوٹتے رہے اور صاحب کو شہ پر شہ دیتے رہے ۔اب ان کو ایک طرف عدلیہ اور دوسری طرف ’’آسمانی مخلوق ‘‘خلاف لڑواتے رہے یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ نے ان کو نااہل قرار دیا۔اب جھگڑا یہ تھا کہ آیا وہ تاحیات نااہل ہیں یا سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی طرح 5 سال کیلئے نا اہل ہوئے ہیں ۔اب ان کی جنگ عوام کی ووٹوں اور نااہلی کے درمیان جاری تھی کہ درمیان میں کسی نے عمران خان کو وزیراعظم بننے کے جھلک دکھادی ۔تو وہ درمیانی مدت کے الیکشن ہارنے کے باوجود وزیراعظم بننے کے حقیقی لائق بننے کیلئے اس بار الیکشن 2018میں ماضی میں نکلے اور نکالے گئے الیکٹرابیل سیاست دانوں پر مشتمل قافلہ لے کر میدان میں اتررہے ہیں۔اس کیلئے وہ پیروں اور پیرنی کی چوکھٹوں پر ماتھاٹیکنے کیلئے بھی تیار ہیں ۔اس الیکشن میں باوجود خود ان کی پارٹی میں ابتری پھیلی ہوئی ہے۔ وہ دن رات ناراض کارکنوں کی پروا کئے بغیر میدان سیاست میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف الیکشن کمیشن کے بنائے ہوئے قواعد وقانون کی زدمیں بے شمار الیکٹرایبل سیاست دان گوشواروں کی بدولت نااہلی کی طرف رواں دواں ہیں ۔ہر صبح سیاست دانوں کی نئی نئی جائیدادوں کے ساتھ نئی نئی بیویاں بھی موضوع ِ بحث ہو رہی ہیں۔ بہت سے غیر ملکی شہریت بھی چھپائے ہوئے تھے وہ بھی سامنے آرہے ہیں اور تو اور ایک آدھ سابق ڈاکٹر بھی ڈگریوں سے دستبردار ہورہے ہیں کیونکہ اس بار نااہلی کی تلوار پورے 5سال تک ان پر لٹکی رہے گی ۔فی الحال تو یہ ہفتہ اہلی اور نااہلی کی کبڈیاں کھیلے گا ۔اگلے ہفتے تک قوم کو معلوم ہوجائے گا اور دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی الگ ہوجائے گا۔بہت سے انہوںنے اور بہت سے ہونیوالے معجزے رونما ہونے کا امکان ہے ۔فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ یہ ہفتہ سیاست دانوں پر بہت بھاری ہے کہ کون الیکشن لڑ سکے گا ؟مگر ایک تبدیلی بہت نمایاں نظر آرہی ہے کہ ووٹر ز اب جاگ چکے ہیں ۔کئی مقامات پر تو انہوں نے سابق حکمرانوں کی بے عزتی اور پٹائی بھی شروع کردی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ معرکہ کہاں جاکر ختم ہوگا ۔