کل ہم بلا ارادہ ایک پاکستانی ہوٹل میں جا بیٹھے۔ ارد گرد ہموطن موجود تھے۔ ہم اکیلے تھے، ایک ایسی میز کے گرد بیٹھے تھے جہاں باقی 5کرسیاںخالی تھیں۔ہم نے اپنی پسندیدہ ڈش ’’سادہ چاول اور مسور کی دال‘‘ لانے کی ’’التجاء‘‘ کی اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔ چند منٹ کے اندر اندر 4نوجوان مزید آئے اور بڑے دھڑلے سے کرسیاں کھینچ کر بیرے کو آواز دی اور مٹن کڑھائی کا آرڈر دیا۔ اسی دوران ہمارے سامنے دال چاول لا کر رکھ دیئے گئے ۔ ہم نے تناول کرنا شروع کئے مگر پہلا نوالہ لیتے ہی ہماری توجہ کھانے پر مکمل مرکوز نہیں رہ سکی کیونکہ وہ 4نوجوان در اصل سیاسی بحث میں’’ مبتلا‘‘ تھے ۔ ان کی باتیں محض باتیں ہی نہیں تھیں بلکہ ان میں بہت کچھ سمجھنے اور سیکھنے کے لئے بھی تھا۔ وہ اپنی باتوں میں کئی رازوں نیازوں سے پردہ بھی اٹھا رہے تھے۔ان میں 2ہم خیال لڑکے میز کی ایک جانب اور 2ہم خیال دوسری جانب بیٹھے تھے۔ گویا ان میں دو’’ آمنے‘‘ تھے اور دو’’سامنے‘‘۔ ہم یہاں انہیں اپنی آسانی کے لئے ’’آمنے‘‘ اور ’’سامنے‘‘ کے ناموں سے ہی بیان کریں گے۔ ان ’’آمنے سامنے‘‘ کے مابین گفتگو کے دوران ہم نے جو کچھ سنا، اس سے اقتباس من و عن پیش کر رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
’’آمنے‘‘نے پوچھا: یار آپ کراچی میں کس جگہ رہتے ہیں؟’’سامنے ‘‘ نے کہا ہم ڈیفینس میں رہتے ہیں۔ اب سامنے نے سوال کیا کہ آپ کہاں رہتے ہیں، آمنے نے جواب دیاکہ ہم ’’اوفینس‘‘ میں رہتے ہیں۔ ’’سامنے نے کہا کہ اوفینس کون سا علاقہ ہے؟ آمنے نے پوچھا کہ یہی میں پوچھتا ہوں کہ ڈیفینس کون سا علاقہ ہے۔سامنے بولا کہ ڈیفینس وہ علاقہ ہے جہاں امیر رہتے ہیں، وہاں غریب غرباء کا کوئی کام نہیں۔آمنے نے کہا کہ اوفینس وہ علاقہ ہے جہاں غریب رہتے ہیں، وہاں امیر امراء کا کوئی کام نہیں۔سامنے نے کہا کہ ڈیفینس میں کلفٹن شلفٹن جیسے علاقے آتے ہیں۔ آمنے نے کہا کہ اوفینس میں بھینس کالونی، گیدڑ کالونی، مچھر کالونی،فقیر کالونی، گوجر نالہ، 2منٹ چورنگی، ناگن، انڈہ موڑجیسے علاقے شامل ہیں۔
سامنے نے استفسار کیا کہ یہ بتائیے آپ ووٹ کس کو دے رہے ہیں۔آمنے نے کہا کہ ہم ووٹ اسی کو دے رہے ہیں جس کی سندھ میں 5سال حکومت رہی ہے کیونکہ ہم تو محترمہ کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔ اب محترمہ دنیا میںنہیں ہیں اس لئے ان کے لال کو ووٹ دیں گے۔ سامنے نے کہا کہ ووٹ کسی کی یاد میں نہیں بلکہ کارکردگی کے بل پر دیا جاتا ہے۔ آمنے بولا کہ محترمہ کے لال نے کہا ہے کہ وہ غریبوں کو غذائی اشیاء سستے داموں فراہم کرنے کے لئے خصوصی کارڈ جاری کریں گے۔ غریبوں کے علاج معالجے کے لئے صحت کارڈ بھی بنیں گے، کسانوں کے حالات بہتر بنانے کے اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ تعلیم عام کرنے کے منصوبوں پر بھی عمل درآمد ہوگا۔ اس کے لئے انہیں ووٹ کی ضرورت ہے اس لئے ہم تو محترمہ کے لال کو ووٹ دیں گے۔
سامنے نے سوال کیا کہ محترم آمنے!یہ بتائیے کہ2013ء سے 2018ء تک کے 5سالوں میں کس کی حکومت تھی؟ آمنے نے کہا کہ محترمہ کے لال کی پارٹی کی حکومت تھی۔ سامنے نے کہا کہ جب ان کی حکومت تھی تو انہوں نے بھوک سے دم توڑتے بچوں کے والدین کو سستی غذائی اشیاء خریدنے کیلئے خصوصی کارڈ کیوں فراہم نہیں کیا؟جب ان کی حکومت تھی تو انہوں نے کراچی کے گلی محلوں میں جا بجا موجود کچرے کے ڈھیر صاف کیوں نہیں کروائے، جب ان کی حکومت تھی تو انہوں نے گیس َعوام کو سستی اشیاء مہیا کرنے کیلئے خصو صی کارڈ فراہم کرنے سے کس نے روک رکھا تھا، جب ان کی ہی حکومت تھی توعوام کو مفت یا سستے علاج کی سہولت فراہم کیوں نہیں کی، انہیں کس نے روک رکھا تھا۔جب ان کی ہی حکومت تھی تو بلدیہ کی فیکٹری میں سیکڑوں انسانوں کو زندہ جلاد یاگیا ، اس لرزہ خیز سانحے کے ملزموں کو آج تک پھانسی نہیں دی گئی، انہیں کس نے روک رکھا تھا۔ کراچی میں نامعلوم افراد کی جانب سے بے شمار افراد کو موت کی نیند سلایا جاتا رہا، اس وقت بھی انہی کی حکومت تھی، انہوں نے قاتلوں کو نشان عبرت کیوں نہیں بنایا، انہیں کس نے روک رکھا تھا، شہر میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کو لوٹنے کے لئے ٹینکر مافیا کو کھلی چھوٹ دی گئی، اس وقت بھی ان کی حکومت تھی،انہوں نے مافیا کا سر کیوں نہیں کچلا، انہیں کس نے روک رکھا تھا۔ شہر میں تاجروں کوبھتے کی پرچیاں تقسیم کی جاتی تھیں اوربھتہ دینے سے انکار کرنے والوں کو جان سے مار دیا جاتا تھا، اس وقت بھی انہی کی حکومت تھی ، انہوں نے بھتہ خور قاتلوں کو تختہ دار پر کیوں نہیں لٹکایا۔ آج وہ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اگر پھر سے موقع دیا جائے تو ہم عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، پانی، اس کے علاوہ صحت، انصاف اور تعلیم سے سندھ کے باسیوں کو مالا مال کر دیں گے۔ پاکستان میں دو پارٹیوں نے اقتدار کے لئے ’’تو چل، میں آیا‘‘کے مصداق باریاں لگا رکھی ہیں۔جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں وہ نئے نئے وعدوں اور خوابوںکی ’’لوٹ سیل‘‘ لگاتے ہیں اور ووٹ کے لئے عوام کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔
آمنے نے سامنے سے استفسار کیا کہ آپ کس کو ووٹ دیں گے؟اس نے جواب دیا کہ میں کسی کو ووٹ دوں یا نہ دوں مگر ان کو نہیں دوں گا جو حکومت ملنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکے اور پھر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں موقع دیا جائے۔ میں ’’بے موقع‘‘کسی ایسے کو اقتدار تک رسائی کا موقع دینا چاہتا ہوں جسے کبھی موقع نہ ملا ہو۔
’’آمنے اور سامنے‘‘ کی گفتگو میں ہمیں عجب قسم کی ’’تبدیلی‘‘ دکھائی دی ۔’’محترم سامنے‘‘ کی باتوں سے ہم اتنے متاثر ہوئے کہ ہمارا دل چاہنے لگا کہ کاش ہم ووٹ مانگنے والے سیاسی رہنمائوں اور امیدواروں سے صرف ا یک سوال کریں کہ ’’تُسی کیتا کی ایہہ، تے سانوں دِتا کی ایہہ؟‘‘