الوداع فرتوتانِ سیاست
اتوار 15 جولائی 2018 3:00
ہم عرصہ ہائے دراز سے اپنی تحریروں، تقریروں، تصریحوں اور تردیدوں میں یہ لکھتے،کہتے، اقرار اور انکار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ہمارے اندر جتنی حیران کن، نایاب و عدم دستیاب قسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، یا جس قسم کا علم، حکمت ، آگہی اور شدبدہمارے وجود کا حصہ ہے وہ سب مس شکیلہ کی محنت شاقہ کی بدولت ہے۔انہوں نے ہی ایک روز ہمیں کمرۂ جماعت میں کتابی درس دیتے دیتے پٹری بدلی اور ہم سے سوال کر ڈالا کہ کیا کسی کو معلوم ہے کہ مدرس اور مدرب یعنی سبق پڑھانے وا لے اور تربیت دینے والے میں کیا فرق ہے؟مس شکیلہ کا یہ سوال سن کر سب کی سٹی گُم ہو گئی، کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ کسی مردانہ یا زنانہ سانس کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اس کمرے میں تشنگانِ علم کا مخلوط اجتماع نہیں بلکہ ’’شہر خموشاں‘‘ یعنی قبرستان کا کوئی کونہ کھدرا ہے۔جب کمرے میں موجود کوئی بھی زیر تعلیم ہستی جواب نہ دے سکی تو مس شکیلہ نے ہمیںکان کھول کر سننے کا حکم جاری کرتے ہوئے باور کرانا شروع کیا کہ:
دیکھا جائے تو’’ مدرس‘‘ اور’’ مدرب‘‘ میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کے شروع میں ’’مدر‘‘آتا ہے اور قدر مختلف یہ ہے کہ ایک کے آخر میں ’’س‘‘ آتا ہے اور دوسرے کے آخر میں ’’ب‘‘۔ یہ فرق چونکہ ایک حرف کا ہے اس لئے اسے ’’حرفی تفاوت‘‘ کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مدرس تو عام ہوتے ہیں۔ ہر وہ ہستی جو ضرورت کے تحت یا بلا ضرورت سبق یا پٹی پڑھانے بیٹھ جائے ، اسے مدرس کہا جاتا ہے کہ مدرب ہر کوئی نہیں ہوتا کیونکہ یہ شخصیات ہوتی ہیں جوزندگی گزارنے کا سلیقہ سجھاتی ہیں، جو مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی ہیں، جو بتاتی ہیں کہ محبت کس طرح لی جاتی ہے اور نفرت کس طرح کی جاتی ہے، جو سمجھاتی ہیں کہ آنسوئوں کو کس طرح پیا جاتا ہے اور لبوں کو کس طرح سیا جاتا ہے، جو یہ بتاتی ہیں کہ بات کو کس طرح تولا جاتا ہے اور سچ کس طرح بولا جاتاہے۔خط کا لفافہ کیسے کھولا جاتا ہے اور کسی کو قدموں تلے کیسے رولا جاتا ہے۔
ہم یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے اندر جتنے بھی ’’گُن‘‘ ہیں، وہ مس شکیلہ کی تدریب کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں اس امر سے آگاہ کیا تھا کہ جس طرح زمانے 3ہیں، ماضی ، حال اور مستقبل، اسی حساب سے خواب بھی 3 قسم کے ہوتے ہیں، ماضی کے خواب، حال کے خواب ا ور مستقبل کے خواب۔ماضی کے خواب انسان کے لئے ڈرائونے نہیں ہو سکتے کیونکہ ماضی تو گزرا ہوا وقت ہوتا ہے۔ اگر انسان کے ماضی کی کسی بری یاد کے حوالے سے خواب دیکھ کر اس کا موڈ خراب ہو سکتا ہے، وہ خوف زدہ نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک حال سے متعلق خواب کا تعلق ہے تو وہ بھی انسان کے لئے اہمیت کا حامل نہیں ہوتا کیونکہ وہ آنکھیں بند کر کے جو کچھ خواب میں دیکھتا ہے وہ آنکھیں کھولنے کے بعد بھی اس کے سامنے موجود ہوتا ہے۔تیسری اور آخری قسم مستقبل کے خوابوں کی ہے۔ یہ انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ گاہے یہ انسان کو خوش کر دیتے ہیں اور گاہے ڈرا دیتے ہیں ۔ ایسے خواب جو انسان کو خوش کر دیں وہ سہانے کہلاتے ہیں اور وہ خواب جو انسان کو خوفزدہ کر دیں وہ ڈرائونے خواب کہلاتے ہیں۔
کل ہم نے ایک ایسا خواب دیکھا جو ہمارے مستقبل کے بارے میں تھا۔ ہم نے دیکھا جیسے پاکستان کے قیام کو 200سال ہو چکے ہیں۔2147ء کا زمانہ ہے ۔جمہوریت بے ا نتہاترقی کر چکی ہے ۔ عوام کی بیزاری دیکھ کر سیاستدانوں نے ایک کام یہ شروع کر دیا ہے کہ وہ اب الگ ا لگ جلسے نہیں کرتے بلکہ عوام کو ایک پنڈال میں جمع ہونے کی دعوت دی جاتی ہے اور پھر یکے بعد دیگرے سب جماعتوں کے سیاسی رہنما آتے ہیں، خطاب کرتے ہیں ، ووٹ کی دہائیاں دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
ہماری کمر جھکی ہوئی ہے۔ ہم لاٹھی ٹیکتے ہوئے مینار پاکستان پہنچے ہیں ۔ ہمارے ہاتھ میں ایک پرچہ ہے جس میں لکھا ہے کہ الف لیگ کا جلسہ پانچ بجے، ’’بے لیگ‘‘ کا سوا پانچ، ’’ٹ لیگ‘‘ کا ساڑھے پانچ، ’’چے لیگ‘‘ کا پونے چھ، اسی طرح مختلف جماعتوں کے گروپوں کے جلسوں کے اوقات پرچے پر موجودہیں۔ ہم میدان میں ایک کرسی پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اتنے میں ایک ہستی کو دعوتِ خطاب دی جاتی ہے۔ وہ اسٹیج پر آتے ہیں اور آکر سوال کرتے ہیں کہ بتائو! مجھے کیوں نکالا،مجھے کیوں نکالا،مجھے کیوں نکالا؟
کچھ دیر گزرنے کے بعد ایک اور سیاسی جماعت کے کھوسٹ رہنما تشریف لاتے ہیں اور وہ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کا رہنما زندہ ہے ، زندہ ہے، زندہ ہے۔وہ اس ’’اندھی یقین دہانی کے بعد اسٹیج سے اتر کر چلے گئے تو اگلے سیاسی رہنما کی آمد کا اعلان ہوا،کچھ سر فضائوں میں بکھرے اور پھر مردانہ وار لرزتی آوازیوں کانوں کو سنائی دی کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ چکی ہے، آ چکی ہے، آچکی ہے۔‘‘ہم نے دیکھا کہ200سال میں ہر سیاستداں کا حلیہ بالکل ہی بدل گیامگر اسی دوران اسٹیج سے اعلان ہوا کہ اب تشریف لاتی ہیں’’مس شکیلہ‘‘، یہ سن کر ہم اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہوئے اورکپکپاتے قدموں سے اسٹیج کی جانب تیزی سے چل پڑے۔ہم حیران تھے کہ مس شکیلہ2147ء میں بھی بالکل ایسی تھیںجیسی 1960ء میں تھیں۔اتنے سال گزرنے کے باوجودانکی آواز میں وہی کھنک ، لہجے میں وہی دھمک، چال میں وہی لچک۔ ہم جیسے ہی اسٹیج تک پہنچے، ان کی تقریر کا اختتام ہو گیا۔ وہ سیڑھیوں سے نیچے آئیںتو مس شکیلہ کے ہم جیسے دیگر شاگرد مردوخواتین نے انہیں گھیر لیا اور بصد حیرت پوچھا کہ مس ! آپ تو بالکل بھی نہیں بدلیں۔ جیسی آپ 180سال پہلے تھیں، آج بھی ویسی ہی ہیں۔ اسکا راز کیا ہے؟ انہوں نے جوب دیا کہ میں آج بھی بچوں کو پڑھاتی ہوں، انہیں اچھی سے ا چھی تربیت دینے کی کوشش کرتی ہوں، انہیں زیور علم سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں، کم عمر لوگوں میں رہتی ہوں، انہی کی باتیں سنتی ہوں، ان کو سناتی ہوں۔یاد رکھئے، انسان جس ماحول میں رہتا ہے، اسی کا اثر قبول کرتا ہے اسی لئے میری پوری کوشش ہے کہ وطن عزیز کی باگ ڈور، سارے اختیارات، تمام کاروبارِ مملکت نوجوانوں کو سونپ دیا جائے ،پھر دیکھئے یہ ملک کس طرح ترقی کرتا ہے ۔ اسے دیکھنے والے یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ واقعی جب سے ملک کی زمام نوجوانوں نے تھامی ہے، اس کی جوانی لوٹ آئی ہے۔ یہ سہانا خواب دیکھ کر ہماری آنکھ کھلی تو دل نے کہا کاش! نوجوان قیادت سامنے آئے اورفرتوتانِ سیاست سے ہمارا پیچھا چھوٹ جائے ، الوداع فرتوتان سیاست۔