پاکستان 1947ء میں قائم ہواتھا اور آج سے 47برس قبل اسے دو لخت کر دیا گیا تھا۔اس سانحے کی شکل میں ہمارے پیارے وطن نے ہمارادل توڑ دیا تھا۔یہ ہماری زندگی میں ’’دل پھٹول‘‘ کا پہلا تجربہ تھا۔ ویسے بھی اس وقت ہم صرف ’’دل والے‘‘تھے، ’’دلدار‘‘ نہیں تھے۔ اس کے بعدتو پھر نجانے کتنی ہی جیتی جاگتی ہستیوں نے ہمارا دل توڑا۔
71ء کے سانحے کے بعدجناب بھٹو نے عوام کو خوش خبریاں سنائیں جن سے ہمیں ایسالگا جیسے کسی نے ٹوٹے دل کو جوڑنے کے لئے اس پر مرہم رکھنا شروع کر دیا ہو۔انہوں نے فرمایا کہ اب ملک میں عوام کا راج ہوگا، عوامی حکومت ہوگی۔ یہ بات اُس وقت کے پاکستانیوں کے لئے انتہائی حیرت و استعجاب کا باعث تھی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکی تھی کہ عوام کا راج کیسے ہو سکتا ہے ، عوام تو ہوتے ہی محکوم ہیں۔ عوام تو ان کو کہا جاتا ہے جو اپنے اوپر ایک ایسے شخص کو مسلط کرلیتے ہیں جو ان پر حکم چلائے، ان کے لئے وقتاً فوقتاً ڈگڈگی بجاتا رہے، اپنا اُلو سیدھا کرے اور رعایا کو بے وقوف بنائے لیکن یہ کیسے ہو گا جیسا بھٹو صاحب کہہ رہے ہیں کہ عوام راج کریںگے۔لوگوں کو روٹی، کپڑااور مکان دیا جائے گا۔ کسانوں کی موجیں ہوں گی۔ غریبوں کو ایک نہیں،دو نہیں بلکہ 3تین وقت کی روٹیاں کھانے کو ملیں گی۔پھر یوں ہوا کہ بھٹو صاحب کی حکومت آہی گئی۔ دو طرح کے آٹے میسر آنے لگے ایک سستا تھا جو رنگت میں بھورا ہوتا تھا، وہ سستاملتا تھا اور دوسرا آٹا جو مہنگا تھا وہ گورا ہوتا تھا۔ اسی طرح چینی بھی دو اقسام کی ملتی تھی، ایک بھوری ہوتی تھی اور ایک گوری ہوتی تھی۔ بھوری سستی اور گوری مہنگی فروخت کی جاتی تھی۔حکومت نے عوام کو روٹی کھلانے کے لئے پلانٹ لگایا۔ اس نے دودھ کے لئے بھی ملک پلانٹ لگایا۔ اس میں دودھ بھی دوقسم کا تھا جو پلاسٹک کی تھیلیوں میں ملتا تھا۔ جس پر سرخ چھپائی ہوتی تھی وہ سستا ہوتا تھا، اسے پی کر دل چاہتا تھا کہ دودھ پینا چھوڑ دیا جائے اور وہ تھیلی جس پر سبز رنگ کی چھپائی ہوتی تھی ، اسے پی کر دل چاہتا تھا کہ یہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔اسی طرح راشن کارڈ بھی بنا دیئے گئے،جن کی بنیاد پر خریداری کرنے والوں کی لمبی لمبی قطاریں ڈپوز پر دکھائی دیتی تھیں۔کچھ ہی عرصے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہاپھرایسا ہوا کہ ’’عوامی ‘‘کا لفظ ایک اصطلاح بن کر سامنے آگیا۔ ہر وہ شے جس کی پائداری کی کوئی ضمانت نہ ہو، جس کی قیمت بھی کم ہو،اسے عوامی قرار دیا جانے لگا۔ بھیڑ چال ایسی چلی کہ عوامی ریڈیو، عوامی سوٹ، عوامی چوڑیاں، عوامی مرکز، عوامی پکوان ، ہر شے کی عوامی قسم دستیاب ہونے لگی۔ اس طرح عوام کو یہ احساس ہونے لگا کہ ان سے منسوب اصطلاح کسی تعززکا باعث نہیں بلکہ یہ ان مختلف اشیاء یا ہستیوںکے لئے استعمال کی جاتی ہے جوگھٹیا، غیر معیاری اور ارزاںہوں نیز جو وقت گزاری اور اظہار بیزاری کے لئے استعمال کی جاتی ہوں۔بہر حال ’’عوامی حکومت‘‘ کا نام سن کر ہمیں جس خوشی اور مسرت کا احساس ہوا تھا وہ لفظ ’’عوامی‘‘کی حقیقت سامنے آنے کے بعد کافور ہو گیااور ہم جمہوریت ، عوامی بہتری، معاشی اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے ’’ سیاسی کوما‘‘ میں چلے گئے ۔ہمارے سروں سے پہلے چھت چھنی، پھر سائبان ہٹا، دیواریں مخدوش ہوئیں، ہر شخص بے اما ن ہوا، ہاتھوں سے نوالہ چھین لیا گیا، پیرہن تار تار ہوئے ، جو ہمیں دیا گیا وہ ایسے نعرے تھے جن کو ہم آج تک نہیں سمجھ سکے۔پھر یوں ہوا کہ ملک میں ’’تو چل، میں آیا‘‘،’’ آوے ای آوے ‘‘، ’’اک واری فیر‘‘جیسے سیاسی ہیر پھیر چلتے رہے ، ہم اپنے ہاتھ ملتے رہے، ارمان سینوں میں پلتے رہے، ’’رہنما‘‘ ہمارے سینے پہ مونگ دلتے رہے ۔وقت گزرتا رہا۔ ہم زندگی گھسیٹتے رہے ، ایک ہی لکیر کو پیٹتے رہے، مسائل کے انباردیکھ کر جھینکتے رہے۔اسی تشنہ کامی میں47برس گزرنے کے بعد :
نجانے ایسا کیا ہوا، عجیب سی ہوا چلی
یہ گلستاں مہک اٹھا، مہک اٹھی گلی گلی
نوجوانوں جیسے عزم و حوصلے سے معمور ایک عمر رسیدہ ہستی منصۂ شہود پر نمودار ہوئی، نئے نعرے، نئے عنوانات، ائے جذبات اور نئے احساسات سے ہم جیسے پسماندگانِ پاکستان اور ہماری نسل نو جیسے آئندگانِ پاکستان کو انجانے خواب دکھائے۔ ہمیں احساس دلایا کہ سب کچھ بدل چکا ہے ، آپ بھی بدل جائیے۔ ہم نے کہا اب بدل کر کیا کرنا ہے ، اب تو چہرے پہ نکھار بھی نہیں رہا،لوگوں کو ہم سے پیار بھی نہیں رہا ،ہمیں کسی پراعتبار نہیں بھی نہیں رہا، ہمیں اب قرار بھی نہیں رہا۔ پھر یوں ہوا کہ :
26جولائی کی صبح ایک کراچی سے ایک نوجوان نے ہمیں فون کیا ، وہ کہہ رہا تھاکہ آج کی صبح کتنی پُر نور و پُر بہار ہے ، آسمان پر گھٹا چھائی ہوئی ہے ، خنک ہوا چل رہی ہے ، فضا میں حیاتِ نو کی رمق محسوس ہو رہی ہے ، ایسا لگ رہا ہے جیسے سانس لینا نہیں پڑ رہا بلکہ خود بخود آ رہا ہے ۔آج میں آپ کو ایک حقیقت باور کرانا چاہتا ہوں کہ 14اگست کو پاکستان آزاد ہوا تھا، 26جولائی کو پاکستانی آزاد ہوئے ہیں۔
اس نوجوان کی بات سن کر ہماری سوچ نے بھی کروٹ لی اور دل نے جان لیا کہ’’ تبدیلی آچکی ہے‘‘۔