ابوغانیہ ۔جدہ
فیروز“بھائی نے ”لغات“ کے نام پر ہمیں جو اردو سکھائی ہے ، اس کے حوالے سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ”عجیب و غریب“ سے مراد کوئی بھی ایسی شے ہوتی ہے جو حیران کر دینے والی ہو، دوسری اشیائے سے بالکل مختلف ہو یا ایسی خصوصیات کی حامل ہو کہ جو اس جیسی کسی شے میں نہ ملتی ہوں۔ ہم پاکستانی اس تعریف کے مطابق ”عجیب و غریب“ ہیںاور اگر ہم اس مرکب کو اس کے اجزا میں توڑ کر دیکھیں تو بھی ہم ”عجیب“ بھی ہیں اور ”غریب“ تو ہیں ہی۔اب ذرا اس امر کی تحقیق ہو جائے کہ واقعی ہم عجیب ہیں یا خواہ مخواہ میں ہم پر الزام دھرا گیا ہے؟ تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو کرکٹ میں باقاعدگی سے پرشکوہ انداز میں شکست جیسی ہزیمت سے دوچار ہونے کے باوجود ورلڈ کپ جیت لیتے ہیں۔کرکٹ کی دنیا کے حیران کن بلے باز جواپنے کریئر کا آغاز کرنے کے ساتھ ہی دنیا کے نامی گرامی اور خوفناک بولروں کی دھنائی کو اپنا وتیرہ بنا چکا ہو، پاکستانی بولر اسے 2رنز پرڈھیر کر دیتا ہے اور وہ بے چاراپویلین جا کر منہ چھپانے پر مجبو ر ہوجاتا ہے۔اسی طرح ہمارے ہاں ارفع کریم جیسی کلیاں بھی کھلتی ہیں جو اپنی فطانت کے باعث دنیا کو انگشت بدنداں چھوڑ کر جہان فانی سے کوچ کر جاتی ہیں اور ہمارے ہاں ایسے گھاگ بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں پاکستان میں ہنستے، بستے ، چلتے پھرتے ، کھاتے کماتے کئی دہائیاں گزر چکی ہوتی ہیں اس کے باوجود انہیں اپنا قومی ترانہ بھی پورا یاد نہیں ہوتا۔ہماری ”عجیبی“ اور” غریبی “کا ایک اور حیرتناک پرتَو یہ ہے کہ ایک روز ہماری قوم کا ایک فردٹیلی وژن اسکرین پر پوری قوم کے سامنے رندھی ہوئی آواز میں روتی شکل بنا کر یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ میرے پاس کھانے کے لئے روٹی تو دور کی بات ، ایک نوالہ بھی موجود نہیں۔ میں تو اپنی زندگی میں مسلسل فاقے کر رہا ہوں۔ مجھے تو حیرت ہے کہ میرے مخالفین اتنے اندھے بہرے کیوں ہوگئے کہ مجھ اللے تللے کرنے کے الزامات عائد کر دیئے۔ پھریقین کیجئے ، چند روز کے بعدوہی شخصیت ، اسی ٹی وی اسکرین پر دوبارہ نمودار ہوتی ہے اورکہتی ہے کہ جی جی میں تسلیم کرتی ہوں کہ میری زندگی اللوں تللوں میں گزر رہی ہے مگر یہاں میں ایک بات واضح کر دوں کہ میں جتنے بھی اللے تللے کر رہا ہوں وہ صرف اور صرف اپنے پاپا کے یا شریک حیات کے بل بوتے پرکر رہا ہوں۔
ہم ”عجیب و غریب“ ہونے کے ناتے اس شخصیت سے یہ بھی نہیں پوچھ سکے کہ فاقہ کشی والا بیان درست تھا یا اللوں تللوں والا ؟ یہ تو ہوئی عجیب بات اور غریب بات یہ ہے کہ وہی دروغ گو شخصیت جب ہم سے ووٹ مانگنے آتی ہے اور ہمیں اپنی سچائی کا یقین دلاتی ہے ، بے بنیاد وعدے کرتی ہے اور رنگ برنگے خواب دکھلاتی ہے تو ہم اس کی سب باتوں پر دل و جان سے واری جاتے ہیں اور جھولیاں بھر بھر کر اسے ”ووٹا ووٹ“کر کے کامیاب کرا دیتے ہیں۔گویا ہمارے عوام اس قدر سادہ لوح ہیں کہ وہ جھوٹی شخصیت کو بھی جھوٹا نہیں کہتے ۔
”عجیبی اور غریبی“ کی حاضر ہے ایک مثال اور ، ذرا کیجئے غور،ہمارے ہاں کسی ہستی کو دار فانی سے منتقل ہوئے کتنی ہی دہائیاںکیوں نہ بیت جائیں،وہ سائنسی، مادی، اخلاقی، نظریاتی، فلسفیانہ اور فرزانہ بنیادوں پر فوت شدہ کیوں نے قرار دیا جا چکا ہو، اس متوفی کے مداح اپنے ہم نفسوں کو یقین دلانے میں جُتے رہتے ہیں کہ وہ متوفی ”زندہ ہے ، زندہ ہے“اور ہمارے عوام میں سے کچھ بے چارے ایسے ہیں جو کہنے والے کا دل رکھنے کے لئے، کچھ بے چارے اپنی سادگی کے باعث اور کچھ بے چارے اپنی ناخواندگی کی وجہ سے اور کچھ اپنی کم عقلی سے مجبور ہو کر مان لیتے ہیں کہ ”متوفی زندہ ہے ، زندہ ہے“۔
”عجیبی اور غریبی“کی ایک اور ناقابل یقین مثال یہ ہے کہ ہم آزمائے ہوئے کو آزمانے کے باوجود آزمانے کی خواہش میں آزماتے ہیں اور اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں چند چنیدہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم ہر چناﺅ کے موسم میں چنتے ہیں۔ وہ ہر انتخابی سیزن میں آتے ہیں، جھوٹے وعدے کرتے ہیں، ووٹ مانگتے ہیں، چلے جاتے ہیں اور ہم انہیں ووٹ دے کر کامیاب کرا دیتے ہیں۔ نہ وہ جھوٹ بولتے بولتے، سہانے خواب دکھاتے دکھاتے اور عوام کو بہلاتے بہلاتے تھکتے ہیں اور نہ ہی عوام انہیں ووٹ ڈالتے اور ان کے لئے ”آوے ای آوے“ کے فلک شگاف نعرے مارتے تھکتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جن کے لئے ”آوے آوے “ کے نعرے لگا رہے ہیں و ہ تو پہلے ہی آئے ہوئے ہیں، اقتدار میں موجود ہیں، وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایک موقع اور دیا جائے، اور عوام کی انتہائی درجے کی سادگی دیکھئے کہ وہ انہیں مو قع پر موقع دیئے جا رہے ہیں۔
ہم پاکستانی عوام وہ ہیں جنہیں چند خود پسندوں، مغروروں، بدعنوانوں، مطلبی انسانوں نے یرغمال بنا رکھا ہے، وہ ہمارا خون نچوڑ رہے ہیں، ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں، ہمیں اپنے اشاروں پر چلا رہے ہیں، ہمارے حقوق پامال کر رہے ہیں، ہم پر ظلم ڈھا رہے ہیں، ہماری محنت اور خون پسینے کی کمائی پر ڈاکے ڈال رہے ہیںاور ہم ہیں کہ ان یرغمال بنانے والوں کی محبت میں گرفتار ہیں۔اگر کوئی ہمیں ان کے پنجہ¿ استبداد سے آزاد کرانے کی بات کرتا ہے تو وہ ہمیں ”پاگل“ لگتا ہے ۔ہم ظلم کے پنجے میں جکڑے رہنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اس ”جکڑ“ کو ہی ہم تحفظ سمجھتے ہیں اور اس سے نجات کا تصور ہمیں عدم تحفظ اور بے سروسامانی کے احساس کا شکار کر دیتا ہے ۔ اس حوالے سے ہم پر وہ شعر صادق آتا ہے کہ :
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
ہماری اس بات کا ثبوت دھنک کے صفحے پر شائع شدہ تصویر ہے جو عروس البلاد کراچی کی ایک معروف شاہراہ جہانگیر روڈ کی ہے جس میں سڑک کے کنارے موجود فٹ پاتھ دکھایاگیا ہے جو دبیز غلاظت اورمتعفن کیچڑمیں دبا ہوا ہے ۔ یہ رہائشی علاقہ ہے ۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر، منی پاکستان، کراچی کے شہری اس ناگفتہ بہ حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ تو ایک منظر ہے ، کراچی میں جا بجا چھوڑی بڑی کچرا کنڈیاں سجی دکھائی دیتی ہیں جو مقامی ذمہ داران کا منہ چڑا رہی ہیں۔ افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کچرے اور غلاظت کو منہ چڑاتے چڑاتے شرم آنے لگی ہے مگر مقامی ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ شہر میں اس ”کچرا گردی“ کو دو سال مکمل ہونے کوہیں۔ عوام نے احتجاج کیا، جلسے کئے، جلوس نکالے، مظاہرے کئے، وزیر اعلیٰ ہاﺅس کی جانب مارچ کرنے کی ”جسارت“ کی، پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ہا ہا کار مچی۔ سب کو چپ کرا کر گھر لوٹ جانے پر مجبورکر دیا گیا۔ کچرا گردی وہیں کی وہیں رہی۔ پھر عوام نے شور مچایا۔ شہری انتظامیہ کے ذمہ داران نے صفائی کی مشینوں پر سوار ہو کر تصاویر کھچوائیںاور لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ عوام کے حقیقی ہمدرد ہیں۔ انہوں نے شہریوں کومسائل سے نجات دلانے کے لئے رات دن ایک کر رکھا ہے۔ اسی صورتحال میں ہفتے، مہینے اور سال بیت رہے ہیں، کچرا گردی آج بھی اسی طمطراق سے جگہ جگہ اپنا لوہا منواتی دکھائی دیتی ہے۔بے چارے ساکنانِ شہر عظیم صبر کرنے پر مجبور ہیں۔
آپ سب جانتے ہی ہیں کہ شہر کراچی کو عروس البلاد یعنی پاکستان کے تمام شہروں کی ”دلہن“ قرار دیاجاتا ہے۔ اب موجودہ حالت میں ان تمام حالات میں ہماری صاحبان اختیار یا صاحبان حل و عقد سے ایک گزارش ہے کہ بلا شبہ آپ اور ہم ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی پاگل خانے کا رہائشی بھی اچھی طرح جانتا اور پہچانتا ہے کہ دلہن کس کو کہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کسی بچے سے بھی پوچھ لیں کہ بیٹاذرا بتائیے کہ دلہن کس کو کہتے ہیں اور وہ کیسی ہوتی ہے؟ وہ فٹ جواب دے گا کہ:
” دلہن اس زنانہ شخصیت کو کہتے ہیں جو انتہائی خوبصورت ہو، اس کی زلفیں گرہ گیر اور اماوس کی رات جیسی سیاہ ہوں، جس کی آنکھیں غزالی ہوں، جس کے رخسار گلاب کو شرمائیں، جس کی پلوں پر شامیانوں کا گمان گزرے ، جس کی قامت کو دیکھ کریوں محسوس ہو کہ یہ سرو کا استعارہ ہے ، جس کی چال کو دیکھ کر ہرن قلانچیں بھرنا بھول جائے، جس کی آواز سن کر کوئل بھی کوکتے ہوئے خفت محسوس کرنے لگے، جس کی انگلیاں دیکھ کر صدائے ساز آنے لگے، جس کے ا نداز دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگے جیسے نزاکت کی عملی تشریح کی جا رہی ہو۔“
اس بچے سے اگر ہم سوال کریں کہ بیٹا!کیا کراچی کو شہروں کی دلہن کہا جا سکتا ہے؟تو یقیناہم سے ہی استفسار کرنے لگے گا کہ انکل آپ یہ فرمائیے کہ جس شہر میں اسکول کی دیوارکی بنیادیں کیچڑ میں غرق ہوں، جس شہر کی سڑکوں پر دوڑنے والی تیز رفتار ناہنجار بسیںکثیف ”سرطانی دھوا ں“ چھوڑتی ہوں، جہاں کی سڑکیں برسوں سے گڑھوں کی پرورش پر مامور ہوں،جہاں کے فٹ پاتھ تجاوزات سے اٹے ہوں، جہاں کی گلیاں، سڑکیں اور بازار کچرے کی آماجگاہ ہوں، جہاں ہوا کے ساتھ پلاسٹک کی تھیلیاں فضا میں پرواز کرتی دکھائی دیں، جہاں جلتے کچرے سے اٹھنے والا دھواں اسکول جانے والے بچوں کے لئے مسائل پیدا کرتا ہو، جہاں موبائل فون چھن جانے کا خطرہ ہو، جہاں جان کا تحفظ یقینی نہ ہو، بھلا فرمائیے کہ ان عوامل و علل میں دلہنیت تو صدیوں کے فاصلے پر بھی دکھائی نہیں دے سکتی ۔ان حالات میں کراچی کوشہر وںکی دلہن کہنے والے کو ذہنی امراض کے کسی معالج سے رجوع کرنے کا مشورہ دینا ناگزیر ہوگا۔