عالمی اقتصاد اور نوخیز بازاروں میں تناﺅ
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ
ان دنوں تجارتی کشیدگی اور جغرافیائی سیاسی جھگڑوں کے باعث عالمی مارکیٹ میں خوف وہراس کی لہر آئی ہوئی ہے۔ بوجوہ یہ خوف بجا معلوم ہوتا ہے۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ سب ممالک عالمی اقتصاد میں شرح نمو برقرار رکھنے کو ضروری سمجھ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ متوقع شرح نمو کوئی بہت زیادہ نہیں۔ بعض بڑے ممالک کے درمیان تجارتی شدو مد نے عالمی اقتصاد کے منظر نامے کو الجھا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی بڑی تجارتی جنگ کی داغ بیل ڈالی جارہی ہو۔
جی ٹوئنٹی میں شامل ممالک کے مرکزی بینکوں کے گورنروں اور وزرائے خزانہ نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اور جس طرح کے انتباہ انہوں نے دیئے ہیں انہیں مذکورہ تناظر کو مدنظر رکھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔ جی ٹوئنٹی گروپ نے 10برس قبل عالمی مالیاتی بحران کے بعد حل کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ فی الوقت مثبت پہلو یہ ہے کہ جی ٹوئنٹی میں شامل ممالک نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ نوخیز منڈیاں خارجی صدموں کو جھیل سکیں گی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والی تجارتی کھینچا تانی کے منفی اثرات سامنے آنے والے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ زیادہ پر خطر نہ ہوں اور زیادہ مشکلات نہ پیدا کریں۔
عالمی منظر نامے پر جو مسائل ابھر کر سامنے آرہے ہیں وہ بنیادی طور پر تجارتی تناﺅ کا نتیجہ ہیں۔ امریکہ کی جانب سے چین، کینیڈا اور میکسیکو کی درآمدات پر اضافی کسٹم ڈیوٹی اسی طرح یورپی اتحادیوں کی درآمدات پر نئی ڈیوٹی نے پوری دنیا کوالجھا دیا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ان میں سے بعض ممالک ساتھ ہی ساتھ غریب ممالک تجارتی بحران کے سنگین نتائج کا شکار ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭