20فیصد جدوجہد، 80فیصد کامیابی
ھلیل الحربی ۔ مکہ
ہم میں سے کون ہوگا جس نے یہ مقولہ نہ سنا ہوگا کہ ہماری 80فیصد کامیابیاں ہماری 20فیصد جدوجہد کاثمر ہوتی ہیں۔ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اصول اٹلی کے ماہر اقتصاد ویل فریڈو بیریٹو نے 1857ءکے دوران دنیا کو دیا تھا۔ جب میں نے پہلی مرتبہ یہ جملہ پڑھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ بالکل درست ہے تاہم اس اصول کو مجسم شکل میں دیکھنے کا اتفاق اس وقت ہوا جب اپنے دوست کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی روزی روٹی ٹیکسی کے ذریعے کماتا ۔ میں دیکھتا کہ وہ ایک سے زیادہ مجلسوں میں ہمیشہ پابندی سے جاتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ اسکا سبب دریافت کروں۔ اس سے پوچھا کہ آپ مختلف مجلسوں میں بیٹھنے کے بجائے یہ وقت اپنی روزی روٹی کی تلاش اور اپنے اہل و عیال کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے روزگار میں کیوں نہیں لگاتے۔ ہمارے درمیان گفت و شنید ہوئی۔ میں اسے ا پنے سوال کی طرف لانے کا چکر چلاتا رہا۔ آخر کار میں نے اس سے یہ سوال کسی تمہید کے بغیر کر ہی دیا۔ میرے ٹیکسی ڈرائیور دوست نے جو جواب دیا وہ ایک طرح سے 20تقسیم 80کے کورس کا آئینہ دار تھا۔ اس نے مجھے اپنے نظام کار کے بارے میں کسی قانون، کسی ضابطے کے بغیر آگاہ کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ دن بھر کام نہیں کرتا۔ ایسا کرنے سے اس کا جسم تھک ہار جائیگا۔ ڈرائیور دوست نے مزید بتایا کہ تجربے سے اسے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ دن میں کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں جب زیادہ آمدنی کم وقت میں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں زیادہ سواریاں مل جاتی ہیں۔ ان 2 باتو ںکے پیش نظر وہ صرف مخصوص اوقات میں مقررہ مقامات پر ہی کام کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اسکی آمدنی ان ٹیکسی ڈرائ©یوروں سے کسی طور کم نہیں جو ہر وقت اور ہر جگہ دوڑتے رہتے ہیں۔ تھوڑا بہت فرق ہوگا۔ میرے ٹیکسی ڈرائیو ردوست نے یہ بھی بتایا کہ اسے اس بات پر بیحد افسوس ہے کہ ٹیکسی چلانے والے بن سوچے سمجھے کام کرتے ہیں ۔ بڑی محنت کرتے ہیں۔ ہر وقت سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔ کام کرتے کرتے تھک ہار جاتے ہیں اور بالاخر سونے کیلئے گھر چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جو ٹیکسی ڈرائیور تقریبات میں نظر نہیں آتے۔
میرے دوست نے یہ فلسفہ معلوم کرلیا کہ 20فیصد جدوجہد اور وقت خرچ کرکے 80فیصد آمدنی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی پتہ لگالیا کہ اسکے شہر کا20فیصد رقبہ اسکی یومیہ آمدنی کے 80فیصد کے مساوی ہے۔ وہ اسی اصول پر عمل کرکے زندگی بھر کام کرتا رہا۔ میں یہ قصہ اسلئے بیان کررہا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ 20فیصد محنت پر 80فیصد آمدنی کا راز کیا ہے۔ آخر میں اپنے قارئین کو یہی مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ اپنی زندگی کے طور طریقوں پر نظر ثانی کریں۔ زیادہ محنت اور زیادہ وقت خر چ کرنے سے بچیں۔ منظم شکل میں سوچ سمجھ کر 20فیصد محنت کریں اور 80فیصد کے مزے لوٹیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭