1962ء کے 21 مارچ کی صبح تھی لاہور کے ہوائی اڈے پر رنگ و مہک کا سیلاب تھا۔ عمائدین شہر اضطراب میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ پھر قومی ایئر لائن کا ایک طیارہ اترا۔ دروازہ کھلا اور دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی خاتون اول جیکولین کینیڈی نمودار ہوئیں، اڈہ تالیوں سے گونج اٹھا۔ سیڑھیوں کے اختتام پر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان نے معزز مہمان خاتون کا استقبال کیا۔ وہ ایوب خان کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر آئی تھیں اور ان کے استقبال کو شہرامنڈ پڑا تھا۔ مال روڈ کے دو رویہ عوام کا ہجوم تھا جو زندہ باد ، پائندہ باد کے نعرے لگارہا تھا۔ دورے کا آغاز انتہائی شاندار تھا۔ اُسی شام گورنر ہاؤس میں جیکولین کینیڈی کے اعزاز میں ملک امیر محمد خان نے عشائیہ دیا۔ گورنر میانوالی کے نواب تھے۔ ہمیشہ شیروانی اور شلوار میں ملبوس ہوتے تھے جبکہ سر پر بڑے طمطراق سے بلند کلاہ رکھتے تھے۔ عشائیے پر انہوں نے اپنے روایتی لباس میں امریکی خاتون اول کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ایوب خان بھی فوجی وردی میں ملبوس وہاں موجود تھے۔ درجنوں انواع و اقسام کے کھانے میزوں کی زینت بنے تھے۔ خاتون اول کو ایک سبزی کا ذائقہ پسند آگیا اور انہوں نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کے شجرہ نسب کے بارے میں سوال کردیا۔ ملک امیر محمد خان نے انتہائی شستہ انگریزی میں اس سبزی پر روشنی ڈالی اور پھر پاکستان کی دیگر سبزیوں ، پھولوں اور پھلوں کی خصوصیات اور ان کی افزائش کے طریقوں کی وضاحت کی۔ جیکولین کینیڈی حیرت سے کلاہ کے نیچے مونچھوں اور ان کے نیچے شیروانی اور شلوار کو گھورتی ملک امیر محمد خان کا لیکچر سنتی رہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل’’پینڈو‘‘ گورنر نے انہیں خوشگوار طور پر ششدر کیا تھا۔ جب ملک صاحب کی گفتگو کا اختتام ہوا تو خاتون اول نے زراعت پر ان کی معلومات کی بے حد ستائش کی اور کہا کہ وہ اپنے خاوند جان ایف کینیڈی سے سفارش کریں گی کہ وہ ملک امیر محمد خان کی خدمات اپنے زرعی مشیر کے طور پر حاصل کرلے۔ ایوب خان کی کابینہ میں بیش بہا نگینے تھے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں جتنی پیشرفت ان 10 برسوں میں ہوئی اتنی کسی اور دور میں نہیں ہوئی۔ اگر راہنما بے غرض اور مخلص ہو اور دیانت سے اپنے ہمراہیوں کا انتخاب کرے تو برسو ں کی مسافت دنوں میں طے ہوجاتی ہے۔ آئیں ذرا ایوب خان کی کابینہ پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ 1958ء سے 1968ء تک کی تیز رفتار پیشرفت کی ذمہ داری کن کو سونپی گئی تھی اور وہ کیا تھے؟ وزیر خزانہ محمد شعیب تھے۔ مالیاتی امور کے ماہر 1958ء سے 1965ء تک کے 8 برس پاکستان کے مالی امور سنبھالتے رہے اور انہی برسوں کے دوران ملک میں ترقی کی بنیاد پڑی۔ تربیلا ، وارسک اور منگلا جیسے ڈیم وطن عزیز کے چہرے کو درخشانی عطاکرنے لگے۔ اسلام آباد کی صورتگری ہوئی۔ ایوب کابینہ سے علیحدگی کے بعد محمد شعیب عالمی بینک کے مشیر بنے۔ ان کی بیٹی نفیس صادق اقوام متحدہ میں خاندانی منصوبہ بندی اور پاپولیشن کنٹرول کی انڈر سیکریٹری جنرل ہیں۔ ایوب خان نے وزیر اطلاعات کے طور پر خواجہ شہاب الدین کا تقرر کیا تھا۔ عربی ، فارسی ، اردو ، انگریزی اور بنگالی زبان کے ماہر خواجہ صاحب حافظ قرآن بھی تھے۔ 1921ء میں ڈھاکا مسلم لیگ کے صدر رہے جبکہ 1937ء میںبنگال مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تھی۔ 1943ء سے 1945ء تک خواجہ ناظم الدین کی مسلم لیگ کی حکومت میں تجارت ، محنت اور صنعت کے وزیر رہے تھے۔ 1951ء میں صوبہ سرحد کے گورنر تھے۔ یمن ، سعودی عرب ، مصر ، نائیجیریا ، کیمرون ، سنیگال، ٹوگو اور سیر الیون میں سفیر رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ برکلے اور آکسفورڈ کی جامعات سے فارغ التحصیل اور لنکنز ان سے بارایٹ لاء کرنے والے اس عبقری کی گفتگو سن کر جان کینیڈی نے کہا تھا ’’ مسٹر بھٹو ! اگر تم امریکی ہوتے تو میں تمہیں امور خارجہ کی وزارت دیتا۔‘‘ بھٹو نے جواب دیا ’’ جناب صدر ! اگر میں امریکی ہوتا تو صدر ہوتا اور آپ میرے وزیر خارجہ ہوتے۔‘‘ بھٹو کی باقی زندگی تاریخ ہے۔ ایک غلام فاروق خان تھے۔ ماہر معاشیات ، سیاستدان ، صنعتکار ، بیورو کریٹ اور معروف تجارتی کمپنی غلام فاروق گروپ کے بانی۔ 1944ء میں آرڈر آف برٹش ایمپائر کا ایوارڈ حاصل کیا۔ واپڈا کا سنگ بنیاد رکھا۔ پہلا سیمنٹ کا کارخانہ لگوایا۔ کراچی شپ یارڈ کی توسیع کی اور پی آئی ڈی سی قائم کی۔ ایک عبدالصبور خان تھے جو 1937ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور 1946ء میں بنگال قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے ۔ مسلم لیگ قانون ساز اسمبلی میں نئی روح پھونکی۔ ساری عمر کنوارے رہے ۔ پبلک ویلفیئر ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور اپنی ساری کمائی اس کے نام کرکے مرے۔ ایک الطاف حسین بھی تھے۔ ڈان اخبار کے پہلے ایڈیٹر ان چیف اور قائداعظم کے چہیتے۔ ماہر تعلیم بھی تھے۔ کالم نویسی کرتے تھے اور کانگریس کی پگڑیاں اڑایا کرتے تھے۔ پاکستان کی صنعتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ، پھر سید شریف الدین پیرزادہ تھے۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ رہے، ذوالفقار علی بھٹو کی علیحدگی کے بعد اسلامی کانفرنس تنظیم کے سیکریٹری جنرل رہے۔ دس کتب تصنیف کیں۔ بعد کے برسوں میں ضیاء الحق کے مشیر بھی رہے۔ کیا کابینہ تھی اور کس حب الوطنی سے کام ہوتا رہا۔ بین الاقوامی حلقوں میں وطن کی عزت تھی۔ ایوب خان کے امریکہ اور برطانیہ کے دورے یاد آتے ہیں۔ سربراہ مخلص اور دیانت دار ہو اور کابینہ کا انتخاب صحیح کرے تو کہکشاں اس کی گزرگاہ بن جاتی ہے۔
کل واٹس اپ پر تحریک انصاف کی متوقع کابینہ کے بارے میں تفصیلات دیکھیں۔ انتہائی صاحب علم لوگ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے پاس کیمرج یونیورسٹی سے قانون اور سیاست کی ایم اے کی ڈگریاں ہیں۔ اسد عمر کو ستارہ امتیاز مل چکا ہے اور کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ایم بی اے کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ چوہدری سرور گلاسگو یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری رکھتے ہیں اور برطانوی پارلیمان کے لیے منتخب ہونے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری ملٹری سائنس اور پولیٹیکل سائنس میں لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈبل ایم ایس سی کرچکی ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہیں۔ اعظم سواتی ساؤتھ ٹیکساس کالج آف لاء سے قانون سازی میں ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں۔ لیکن اتنے پڑھے لکھے لوگ تو ہر دور میں حکومت میں رہے ہیں۔
میں یہ کالم کیوں لکھ ہا ہوں؟ اس کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ راہنما مخلص اور بے غرض ہو تو ترقی اپنے دروازے کھولتی ہے۔ ایوب خان صرف ایک اٹیچی کیس کے ساتھ ایوان صدر سے خاموشی سے نکل گئے۔ کوئی الزام نہ تھا رشوت ستانی اور وطن فروشی کا! چینی سفیر کو صرف پانی کا ایک گلاس، چائے کا ایک کپ اور 3 بسکٹ پیش کئے اور پاک چین دوستی کے شیریں موضوع پر بات ہوتی رہی۔ اب استنبول کے کباب فروش منتظر ہی رہیں گے کہ کوئی پاکستانی وزیراعظم یورپ سے اسلام آباد جاتے اپنے جہاز کا رخ ان کے کبابوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے اتاترک ہوائی اڈے پر اتارے !! خلیل خان کی فاختہ کے پر قینچ لیے گئے ہیں۔